جب بھی ملتا ہے وہ انجان بڑا لگتا ہے مجھ کو اس بات میں نقصان بڑا لگتا ہے عمر تھوڑی ہے مگر تاب جمال ایسی ہے جس جگہ بیٹھے وہ،
احسن اعجاز
خواہش کوئی بھی دل میں نہ لانا مرے لیے للہ کبھی نہ اشک بہانا مرے لیے فرط طرب سے خاک لحد بھی مری ہے نم آیا ہے کوئی دوست پرانا
کبھی جو غم کے اندھیروں نے گھیر مارا مجھے تمہاری یاد نے بڑھ کر دیا سہارا مجھے میں ایک اشک ہتھیلی پہ دھر کے چلتا ہوں ہزار سمت دکھاتا ہے
زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے اک تعلق بنے گا اور مجھے عمر بھر حادثوں سے ڈرنا ہے پھر ان آنکھوں پہ پڑ
اس کا اک اذن ملے میرا گلا کھُل جاۓ کھُل جا سِم سِم وہ کہے اور صدا کھُل جاۓ ہم سے ملنے میں نہ اتنی بھی خرد مندی دکھا راز
دولت بھی ہے سکوں بھی تو کیا چاہیے تجھے میرے خیال میں تو دعا چاہیے تجھے ہمدرد ہو ستم کے علاوہ بھی جو ترا یعنی مجھ ایسا شخص سدا
ہو عشق میں کسی کا نہ یا رب خراب خون بہتر ہے آدمی کا ہو وقت شباب خون پہلے تو تھی تمیز پہ دور_جدید میں احساس مٹ چکا ہے
وہ بار بار جو کہتا رہا جناب مجھے اس ایک بات نے دکھلائے کتنے خواب مجھے ہوا تو پھر نہ مری خاک تک بھی ڈھونڈ سکی کیا جو اس نے
اس کے پاؤں پڑوں؟ یہ انا تو نہیں وہ بھی اک آدمی ہے خدا تو نہیں فیصلہ کر کے تو کیوں پریشان ہے میرے لب پر کوئی حرفِ لا تو
کس سے حال دل کہوں یہ سارا قصبہ ہے رقیب سب کا ہے وہ آشنا سو بندا بندا ہے رقیب میں نے تو اک سانپ کا ہی سر اتارا ہے
Load More