کہکشاؤں کے خدا سن لے میری سرگوشیاں | غمگین دل کی دعائیہ شاعری
کہکشاؤں کے خدا سن لے میری سرگوشیاں
اشک و خوں سے بھر چکا امت کا ورق داستاں
پنجہ اغیار میں اپنوں کے ہیں قلب و جگر
نہ کوئی ہمدرد آیا نہ ہی کوئی چارہ گر
ہو رہے محروم چادر سے ِادھر بہنوں کے سر
کٹ رہے ہیں اُس طرف معصوم ماؤں کے جگر
چور ہے زخموں سے امت، دور مرہم ہے مگر
جائیں کس کے پاس لیکر آج ہم اپنی فغاں
تھے زمیں پر کل جو رشکِ آسماں اب ہیں کہاں
وہ میرے اسلاف کی اک داستاں اب ہے کہاں
میرے جانبازوں کے قدموں کے نشاں اب ہیں کہاں
جو طلسم کفر توڑے وہ اذاں اب ہے کہاں
جو طوفان ِ درد موڑے وہ چٹاں اب ہے کہاں
وہ صلاح الدین کی تیغِ نہاں اب ہے کہاں
میرے مولا درد کی تسکیں کا ساماں بھیج دے
ماؤں بہنوں کا محافظ اور نگہباں بھیج دے
اس خزاں کے دشت میں ابر بہاراں بھیج دے
جو کرے پھر سے ترو تازہ دل و جاں بھیج دے
قبلہ اول کی خاطر اک نگہباں بھیج دے
جس کے قدموں میں ہے صفدر عظمتوں کا اک جہاں
کہکشاؤں کے خدا سن لے میری سرگوشیاں
اشک و خوں سے بھر چکا امت کا ورق داستاں
شاعری :سلیم اللہ صفدر
اگر آپ مزید مناجات، حمدیہ اشعار، نعت شریف یا شان صحابہ پر کلام پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں