دین کا کام مفت میں کرنا اور "دین کا کام مفت میں کروانے میں” فرق
موجودہ دور میں دین کے کام کرنے والوں پر آنے والے معاشی مسایل کو اجاگر کرتی تحریر
کہتے ہیں کہ علمائے سلف کا عام معمول یہ تھا کہ وہ خطبات و دروس اور تعلیم و تدریس کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ یعنی دین کا کام مفت میں کرتے تھے۔
عرض ہے کہ سلف جب پیسے نہیں لیتے تھے تو وہ ان کا موں کو مکمل طور پر اپنی مرضی سے انجام دیتے تھے ۔
مثلا: درس کا وقت اورٹائم خود اہل علم کا طے کردہ ہوتا تھا۔ سیکھنے والوں کا یا کسی انتظامیہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا ۔
لوگ انہیں اپنے اپنے علاقوں میں بلاتے نہیں تھے۔ بلکہ یہ اہل علم جہاں بھی ہوتے سیکھنے والے خود چل کر ان کے پاس آتے تھے۔
ٹاپک اور موضوع بھی وہی ہوتا تھا جس کا علم ان اہل علم کو پہلے سے ہوتا تھا۔ یہ دوسروں کے دئیے ہوئے نئے موضوعات لے کر پھر اس کی تیاری کا بوجھ نہیں اٹھاتے تھے۔
اس صورت میں ایک عالم کی خدمات لی نہیں جاتی بلکہ وہ از خود مفت میں اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ اس صورت میں عالم کی حیثیت ایک (volunteer) ”متبرع“ کی ہوتی تھی ( Hired ) ”اجیر“ کی نہیں ۔
آج بھی جو علماء اپنی مرضی سے، اپنی جگہ پر ، اپنے وقت پر اور اپنے موضوع پر بولتے یا لکھتے ہیں اس کی کوئی اجرت نہیں لیتے ۔
.
اور سچ پوچھو تو آج بھی اہل علم کی یہ روایت باقی ہے۔ آج بھی جو علماء اپنی مرضی سے، اپنی جگہ پر ، اپنے وقت پر اور اپنے موضوع پر بولتے یا لکھتے ہیں اس کی کوئی اجرت نہیں لیتے ۔
آج کتنے علماء ہیں جو بڑی محنت اور مشقت کے بعد خود کوئی مضمون یا حمد و نعت لکھتے ہیں اور مفت میں ہدیہ قارئین کردیتے ہیں ۔
اسی طرح کتنے علماء ہیں جو اپنے دروس کو ویڈیوز کی شکل میں ریکارڈ کرکے مفت میں سامعین کے لئے شوسل میڈیا پر نشر کردیتے ہیں ۔
اسی طرح بعض علماء اپنے پرسنل اکاؤنٹ سے ، اپنے گھر اور اپنے مناسب وقت پر خود فیس بک یا یوٹیوب پر لائیو آتے ہیں ، درس دیتے ہیں یا سوال وجواب کی مجلس رکھتے ہیں مگر کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔
اس کےبرعکس آج ایک صورت یہ ہے کہ کچھ لوگ یا کچھ ادارے والے اپنے علاقہ میں کوئی پروگرام رکھتے ہیں ، اور اس میں درس و تقریر کے لئے باہر سے کسی عالم کو بلاتے ہیں۔ یا کسی شاعر و نعت خوں سے حمدو نعت لکھواتے یا پڑھواتے ہیں۔ اس صورت میں عالم نہ تو اپنی جگہ پر ہوتا ہے ، نہ اپنے فری وقت میں یہ کام کرتا ہے اور نہ ہی اس کا یہ عمل محنت ومشقت سے خالی ہوتا ہے۔
اس صورت میں ایک عالم اپنی خدمات از خود پیش نہیں کرتا بلکہ اس کی خدمات لی جاتی ہیں ۔ بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ اس صورت میں ایک عالم کی حیثیت ایک (volunteer) ”متبرع“ کی نہیں بلکہ ( Hired ) ”اجیر“ کی ہوتی ہے۔
زندگی گزارنے کے اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں اور دین کا کام کرنے والے علماء کو نوازنے کی جو روایت تھی ختم ہو رہی ہے
علاوہ بریں فی زماننا زندگی گذارنے کے لئے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔
1۔) پہلے کہیں بھی جھونپڑا باندھ کر رہائش اختیار کرنا آسان تھا مگر آج جتنا راشن پر خرچ نہیں آتا اس کے دو گنا بلکہ تین گنا زیادہ خرچ مکان کے کرایہ پر آتا ہے۔
2) پہلے گھر کے تعمیر و درستگی کے اخراجات نہیں تھے ، مگر آج بجلی کا بل ، پانی کا بل ، انٹر نیٹ کا بل ، صفائی کا خرچ اور نہ جانے کیسے کیسے اخرجات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
3) پہلے مقامی ٹریلونگ کا خرچ نا ہونے کے برابر تھا۔ گھوڑے ، گدھے وغیرہ سے کام چلتا تھا۔ مگر آج مقامی ٹریلونگ میں بھی اچھا خاصہ ماہانہ خرچ ہوتا ہے۔
4) پہلے بچوں کی تعلیم میں زیادہ خرچ نہیں تھا۔ آج بچوں کی تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس کی متحمل ہی نہیں ہوتی۔
5) اور آج کے دور کا سب سے بڑا خرچ علاج معالجہ کا ہے۔ جو لگا رہتا ہے ۔ بلکہ ایک بچہ کی پیدائش اگر آپریشن سے ہو تو صرف اسی کیس میں لاکھوں تک بل آجاتاہے۔
ان حالات میں آج بھی ایک عالم اگر دوسروں کے طلب پر مفت میں کام کرتا پھرے تو بھلا بتلائے اس کے اہل وعیال زندہ کیسے رہیں گے ؟
.
6) نیز یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے ایک عالم کی یومیہ ذاتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ مثلا نوکری ، پارٹ ٹائم جاب ، بامعاوضہ کچھ کام وغیرہ ۔
اور اس طرح کے کام الگ الگ افراد کے اعتبار سے اس قدر پرسنل انداز کے ہوتے ہیں ان کا پرچار کرنا اور ان کے حوالے دینا بھی قطعا مناسب نہیں ہوتا ۔
اب اگر دو دن کے لئے اس عالم کو کہیں جانا پڑا تو آمدو رفت کے خرچ کے علاوہ دو دن کی اس کی جو آمدنی تھی اس کا بھی نقصان ہوگا۔ اس کی بھرپائی کون کرے گا؟؟
.
7) ان سب کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ پہلے علماء کو نوازنے کی جو روایت تھی آج وہ روایت بھی ختم ہوچکی ہے۔
ان تمام حالات میں آج اگر ایک عالم دوسروں کے بلانے پر دین کا کام کے نام پر مفت میں دورے کرتا رہے یا مفت میں لکھتا رہے تو بتائیں اس کے گھر کا خرچ کیسے چلے گا ؟؟