درد آنکھوں سے ہر بات کہتا رہا پانی بہتا رہا
دل خموشی سے نقصان سہتا رہا پانی بہتا رہا
گھر تو سیلاب کی ریت میں کھو گیا چھت سلامت رہی
دفن سامان قدموں میں ہوتا رہا پانی بہتا رہا
موج طوفاں کی آغوش میں کس قدر لاشیں گم ہو گئیں
ماں کا دل ڈوبتا اور ابھرتا رہا پانی بہتا رہا
کب ملینگے بھلا جا چکے ہیں جو سب، کھو گئے ہیں جو اب
ہر کوئی خود سے بس اتنا سنتا رہا پانی بہتا رہا
اک عجب اپنی کیچڑ میں حالت رہی نہ جلے نہ بجھے
گیلی لکڑی کا دل تھا سلگتا رہا پانی بہتا رہا
درد سینوں میں اٹھا، کسی بھی رکاوٹ سے تھم نہ سکا
اشک آنکھوں میں آ کر پلٹتا رہا پانی بہتا رہا
دردِ جاں پر وہ مرہم لگاتے رہے لوگ آتے رہے
پیپ کو زخم ہر کوئی کہتا رہا پانی بہتا رہا
درد آنکھوں سے ہر بات کہتا رہا پانی بہتا رہا
دل خموشی سے نقصان سہتا رہا پانی بہتا رہا
شاعری :سلیم اللہ صفدر


گیلی لکڑی کا دل تھا سلگتا رہا پانی بہتا رہا
اگر آپ مزید اداس شاعری پڑھنا چاہیں تو یہ لازمی دیکھیں