ہم ہیں دنیا سے بیزار سادہ صفت ہم سے عشق و محبت نہ فرمائیے جن کی خوشبو ہمارا سکوں چھین لے ایسے پھولوں کو پانی نہ پہنچائیے
زین العابدین ذُوالقُروح
خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
اے مرے یار مرے دوست مرا مان ہے تو مری دیرینہ محبت ہے، مری شان ہے تو ترے دم سے مرے دن رات سنور جاتے ہیں مرے چہرے کے بھی
مرے اندر بھی اک دلکش نگر آباد رہتا ہے مصائب کا اداسی کا بھنور آباد رہتا ہے کسی کے طنز کرنے سے پریشاں ہم نہیں ہوتے ہزاروں زخم کھا کر
اک پرندہ اُڑ چلا آندھی کا جھونکا دیکھ کر کوئی پیاسا مر گیا پانی کو گہرا دیکھ کر کون مظلوموں کی ہمدردی کرے گا اب بھلا بِک گئے ہمدرد بھی