آ ستم گر زور اپنا آزمانے کے لیے | اردو انقلابی شاعری از شیخ دانش عاصی
Inqalabi poetry | Inqalabi poetry Urdu
آ ستم گر زور اپنا آزمانے کے لیے
آگئے میدان میں ہم جاں لٹانے کے لیے
خود سے قاتل آگئے ہم تیرے خنجر کے تَلے
اپنے خوں سے زینتِ مَقتل بڑھانے کے لیے
مِٹ گیا نام و نشاں انسانیت کا دہر سے
میڈیا کوشاں ہے لیکن سچ چُھپانے کے لیے
گیسوئے جاناں کے پیچ و خم میں الجھے نو جواں
کاش اٹھتے انقلابِ وقت لانے کے لیے
ہم نے آکر روشنی کے واسطے ساماں کیے
ظلمتیں بے تاب تھیں گلشن پہ چھانے کے لیے
وہ بھلا انسان کہلانے کے لائق کیسے ہو ؟
جو خودی کو بیچ ڈالے آب و دانے کے لیے
کیا کہا سب راستے پُر خار ہیں منزل تلک
عشق والے مُستعِد ہیں زخْم کھانے کے لیے
حاصلِ تہذیبِ اَفرَنگی حیا کی موت ہے
قمقمے رنگیں ہیں وقتی سب دکھانے کے لیے
حسرت و یاس و الَم اُمِّید و رنج و درد و غم
صرْف دانش موت ہی باقی ہے آنے کے لیے
آ ستم گر زور اپنا آزمانے کے لیے
آگئے میدان میں ہم جاں لٹانے کے لیے
شاعری : شیخ دانش عاصی اورنگ آبادی
اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
کٹھن ہے راہ وفا اور عجب عدو کے ستم | جذبہ حریت پر انقلابی اشعار