آنسوؤں کو روک کر ہنسنا پڑا اِس شہر میں
خوش مزاجی اوڑھ کر چلنا پڑا اِس شہر میں
عیب ہے سنجیدگی خاموش رہنا جرم ہے
کیا کریں کہ مَسخرہ بننا پڑا اِس شہر میں
سب نگاہوں میں تجسّس تھا فقط میرے لیے
کام جو کرتا نہیں کرنا پڑا اِس شہر میں
غرض کی باتوں کو سننے کا چلن ہے جابجا
غرض ہی کے رنگ میں ڈھلنا پڑا اِس شہر میں
مطمئن انسان پر دشواریاں ہیں اِس لیے
بارہا چلتے ہوئے گرنا پڑا اِس شہر میں
اعلی ظرفی کو ہماری داد دے ہدہد کوئی
دشمنوں کو مہرباں کہنا پڑا اِس شہر میں
آنسوؤں کو روک کر ہنسنا پڑا اِس شہر میں
خوش مزاجی اوڑھ کر چلنا پڑا اِس شہر میں
شاعری: ہدہد الہ آبادی
فریب کھا کے شکایت سے اجتناب کیا
خود سے الجھ رہا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے| اداس اردو شاعری
بکھر گیا ہوں دوبارہ سِمٹ نہیں سکتا | اداس شاعری اردو