یاد کا اک حصار باقی ہے
دو جہانوں کا بار باقی ہے
کوۓ جاناں میں پھر سے جا پہنچے
دل پہ کب اختیار باقی ہے
ایک اک کر کے دفن کرتا رہا
حسرتوں کا مزار باقی ہے
شاہ زادی نے سب کو ٹھکرا دیا
ایک امیدوار باقی ہے
اس قدر جلد مر نہیں سکتا
زندگی کا ادھار باقی ہے
میں نے سگریٹ مسل دیا لیکن
اس سے اٹھتا غبار باقی ہے
عہدِ رفتہ کی طرح اب بھی کیا
تیرے سینے میں پیار باقی ہے؟
عمر گزری خزاں کے ساۓ میں
اور فریبِ بہار باقی ہے
اک حسینہ کی آنکھوں میں عاطر
نیند کا کچھ خمار باقی ہے
یاد کا اک حصار باقی ہے
دو جہانوں کا بار باقی ہے
شاعری: عمر عاطر