وہ دن ہیں یاد جب سارے جہاں کے پاسباں ہم تھے | امت مسلمہ کے سنہری دور پر ایک نظم
امت مسلمہ کے عروج و زوال پر لکھی گئی ایک ولولہ انگیز نظم
وہ دن ہیں یاد جب سارے جہاں کے پاسباں ہم تھے
مقدر کے ستاروں سے مزین کہکشاں ہم تھے
کتابِ وقت پر لکھی سنہری داستاں ہم تھے
ہر اک بت جانے میں توحیدِ باری کی اذاں ہم تھے
ہمارے نام کی ہیبت تھی باطل کے ایوانوں میں
امید مرد مومن تھی خدا کے رازدانوں میں
ہر اک طوفان باطل جب مقابل اپنے آتا تھا
ہمارے عزم کے آگے ہمیشہ سر جھکانا تھا
ہر اک فرعون امت جب ہمیشہ منہ کی کھاتا تھا
جبین وقت پر اسلام ہی بس جگمگاتا تھا
بہار جاوداں قسمت میں تھی تب دیں کے گلشن کی
ہوئی ناکام ہر کوشش ہمیشہ میرے دشمن کی
کہ جب تک کلمہ توحید کی چھاوں میں ٹھہرے تھے
ہر اک جانب ہمارے بس فرشتوں کے ہی پہرے تھے
زمیں پر سب سے روشن تب ہمارے ہی تو چہرے تھے
مقدر مہرباں تھا اور وہی تو دن سنہرے تھے
خدائے لم یزل کے دست قدرت تھے زباں ہم تھے
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں ہم تھے
خلافت کیا گئی ہاتھوں حکومت کھو گئی ہم سے
وہ ہمت اور وہ جرآت اور وہ طاقت کھو گئی ہم سے
جب اپنے دین اور قرآں کی الفت کھو گئی ہم سے
خدائے مہرباں کی تب وہ نصرت کھو گئی ہم سے
اترتی تھی جو اہل بدر پر اک معجزہ بن کر
عطا کرتی تھی مسلم کو جو تاج کسری و قیصر
ہوئی اک بار پھر لیکن وہ امید سحر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
بہار تازہ کا غنچوں میں پھر سے ہے اثر پیدا
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آئے مسلم حکمراں ! توحید کا پرچم اٹھا پھر سے
ذرا تکبیر کے نعروں سے امت کو جگا پھر سے
ہر اک نفرت ختم کر کے دلوں کو اب ملا پھر سے
کہ ملت جسد واحد ہے یہ دنیا کو بتا پھر سے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
وہ دن ہیں یاد جب سارے جہاں کے پاسباں ہم تھے
مقدر کے ستاروں سے مزین کہکشاں ہم تھے
کتابِ وقت پر لکھی سنہری داستاں ہم تھے
ہر اک بت جانے میں توحیدِ باری کی اذاں ہم تھے
ہمارے نام کی ہیبت تھی باطل کے ایوانوں میں
امید مرد مومن تھی خدا کے رازدانوں میں
شاعری :سلیم اللہ صفدر
گھری ہوئی مصیبتوں میں قوم ِ مسلمان ہے | غمگین اردو شاعری
کٹھن ہے راہ وفا اور عجب عدو کے ستم | جذبہ حریت پر انقلابی اشعار