وطن کے نوجوانو یہ وطن اپنا سجاؤ تم
وطن کو ایک گھر سمجھو ، یہ گھر گلشن بناؤ تم

 

عجب مایوسیوں نے اس وطن کو آج گھیرا ہے
عدم تعلیم اور بیروزگاری کا اندھیرا ہے
مگر اے نوجوانو اب تمہی سے ہی سویرا ہے
امیدوں کے چراغ اب اپنے ہاتھوں سے جلاؤ تم

 

تمہاری دیس کی مٹی میں ہی کتنے خزانے ہیں
کہیں سونا، کہیں موتی، کہیں فصلوں کے دانے ہیں
میرے رب کی مدد کے ہی تو یہ سارے بہانے ہیں
زرا سا کھود کر اس پر پسینہ اب بہاؤ تم

 

سہانے خواب ہیں لیکن پیاروں سے جدائی ہے
دیار غیر میں خوشیاں نہیں ہیں بس کمائی ہے
سکوں اپنے ہی گھر میں ہے بھلے سوکھی ہی کھائی ہے
اسی گھر کا ستوں بن کر ہمیشہ مسکراؤ تم

 

ہنر سیکھو، فنون و علم کی معراج کو پاؤ
خدارا اس وطن کے واسطے کچھ کام کر جاؤ
تمہاری بازؤں کے زور پر ہے دیس کی ناؤ
کہ اس خاموش پانی میں ذرا چپو چلاؤ تم

 

کبھی مایوسیوں میں حوصلے تمہارے نہ ہوں کم
یونہی بڑھتے رہو آگے، کبھی نہ تم کرو سر خم
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
یہی ہے کامیابی کا ہنر سب کو بتاؤ تم

 

وطن کے نوجوانو یہ وطن اپنا سجاؤ تم
وطن کو ایک گھر سمجھو ، یہ گھر گلشن بناؤ تم

شاعری : سلیم اللہ صفدر

ہزاروں دکھ ہیں دنیا کے، مگر ہے مان پاکستاں

والدین بچوں کو بیرون ملک کیوں بھیجتے ہیں؟

Shares:
46 Comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *