تمنا ہے سرِمحشر، ہو چھایا خوف جب دل پر،
غلاموں کے وہاں سرور، تری حاصل شفاعت ہو
شبِ عصیاں کی ظلمت میں، گھٹن ماحولِ وحشت میں
ہو آقا دید قسمت میں، ترا ملنا سعادت ہو
بنے وجہِ شناسائی وضو کا نور و رعنائی
قبل از وصل رسوائی نہ دیوارِ ندامت ہو
رسائی تجھ تلک پائیں، گلے ہم تیرے لگ جائیں
ترے قدموں میں جب آئیں، نہ اٹھنے کی اجازت ہو
نہ ہو جب سائباں سر پر، حلق ہو خشک آنکھیں تر
پیاسوں کو وہاں کوثر، ترے ہاتھوں عنایت ہو
کہ جب ہر نفس ہو غمگیں، خطا سے ہو کھڑا رنگیں
بنے تو باعثِ تسکیں چِھنی جس روز راحت ہو
شہید و انبیاء سارے، جُھکے ہوں خوف کے مارے
ولی ہوں جب سبھی ہارے، گراں تیری دلالت ہو
“یَا رَبِّ اُمِّتی” کہنا، وہ سجدے میں ترا رونا
وہاں تیری محبانہ ہمارے حق وکالت ہو
بلائے جب وہ لافانی تو کام آئے ثناء خوانی
سجے پھر بزم نورانی نئی مدحِ رسالت ہو
حسابی مرحلہ ہو حل، ملے پھر نیکیوں کا پھل
تری مسکان کا اک پل ہی انعامِ اطاعت ہو
چھٹے چہرے سے مایوسی، عطا جیون ہو فردوسی
کریں ہم تیری پابوسی، سدا تیری رفاقت ہو
جب آگے پُل صراط آئے نہ دشتِ دل پہ غم چھائے
درود ہونٹوں پہ آ جائے، وہ لمحہ اِک سیاحت ہو
کنارے پہ لگیں جس دم، ہٹے اک سر سے جبلِ غم
رواں سمتِ جناں ہوں ہم حسیں تیری قیادت ہو
درِ جنت تو کھٹکائے، خدا دروازے کھلوائے
سدا تو ہم کو مل جائے، نہ باقی دل میں چاہت ہو
تمنا ہے سرِمحشر، ہو چھایا خوف جب دل پر،
غلاموں کے وہاں سرور، تری حاصل شفاعت ہو
شبِ عصیاں کی ظلمت میں، گھٹن ماحولِ وحشت میں
ہو آقا دید قسمت میں، ترا ملنا سعادت ہو
شاعری: مغیرہ حیدر