وحشت زدہ عجب سے خیالات کی طرف ہر ایک لمحہ ذہن ہے خدشات کی طرف آئینہ دیکھتے ہوئے جاتا ہے اب دھیان ویران وخستہ حال مقامات کی طرف لائی جو
عمر عاطر
یاد کے پیڑ کی شاخوں پہ چہک ہوتی ہے اور پھر صبح کے ہنگام تلک ہوتی ہے جانا ہوتا ہے مجھے نیند کی وادی کی طرف سامنے سوچ کے رستے
دل اکتانے لگ جاتا ہے بزم آرائی سے اس لیے رشتہ قائم رکھتا ہوں تنہائی سے یہ کیسا انجانا سا موسم در آیا ہے گلشن کیوں ویراں ہے پھولوں کی
یاد کا اک حصار باقی ہے دو جہانوں کا بار باقی ہے کوۓ جاناں میں پھر سے جا پہنچے دل پہ کب اختیار باقی ہے ایک اک کر کے دفن
لب پر مہر لگاؤ اور خاموش رہو سب کچھ دیکھتے جاؤ اور خاموش رہو اپنی حالتِ زار کا واحد ذمہ دار قسمت کو ٹھہراؤ اور خاموش رہو گھر سے دور
اک مسلسل سے امتحان میں ہوں وہ سمجھتے ہیں آن بان میں ہوں خودکشی کب کا کر گیا ہوتا آیتِ صبر کی امان میں ہوں جسم سارا جھلس گیا میرا
اے مرے یار کم نہیں ہوتا شوقِ دیدار کم نہیں ہوتا مرتے جاتے ہیں سب کہانی میں تیرا کردار کم نہیں ہوتا یہ الگ بات جھوٹ رائج ہے سچ کا
کوئی تدبیر کارگر بھی نہیں راہ پرخار مختصر بھی نہیں مجھ پہ ٹوٹے اذیتوں کے پہاڑ دوست احباب کو خبر بھی نہیں قافلے نے وہیں قیام کیا جس جگہ سایہ
سیہ شب کا فسوں چھانے لگا آہستہ آہستہ کوئی گھر کی طرف جانے لگا آہستہ آہستہ کتابِ عہدِ رفتہ میں جسے تو نے سجایا تھا ترا وہ پھول مرجھانے لگا
میں منتظر تھا اس کی طرف سے جواب کا یعنی کہ اک سفر تھا، سفر بھی سراب کا میں زندگی کی تلخ حقیقت کو بھول کر آغاز کر رہا ہوں