اتنے بڑے جہان میں تنہا رہا ہوں میں تنہاٸ کے دکھوں سے شناسا رہا ہوں میں مانوس ہو ہی جاٶں گا خلوت سے ایک دن ہر وقت اس خیال میں
اداس
درد نعمت کی طرح زخم خزانوں جیسے اس لئے نوحے بھی گاۓ ہیں ترانوں جیسے ہم جنوں والے ہنسا کرتے ہیں گھاٹے کھا کر كفِ افسوس نہیں مَلتے سیانوں جیسے
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا دامن خاک
خود سے الجھ رہا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے خوش ہوں یا رورہا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے ماضی کی دلفریب،حسیں،خوشنما تریں یادوں میں لاپتہ ہوں مجھے چھوڑ دیجیے
بدن سلگتا ہے تپتی جبین ہوتی ہے یہ کیفيت مری شب پونے تین ہوتی ہے انھیں فلک پہ کروں دفن گر اجازت ہو ! وہ جن پہ تنگ خدا کی
دل کے خاک آلود کپڑے پر نکھار آنے لگا تھوڑا تھوڑا اب تمہارا اعتبار آنے لگا کچھ دنوں سےاس کو شاید ہم سمجھ آنےلگے کچھ دنوں سے سنگ کو شیشے
عجب گھٹن تھی وہاں پر لہٰذا نکلے اور تمام رات تلاشے پھر اپنے جیسے اور تمھارے دل کی طرف اور رستے جاتے تھے کسی نے ہم کو مہیا کیے تھے
زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے اک تعلق بنے گا اور مجھے عمر بھر حادثوں سے ڈرنا ہے پھر ان آنکھوں پہ پڑ
تُو یہ مت سوچ کیسا سوچتا ہوں ترے بارے میں اچھا سوچتا ہوں مہک جاتی ہیں میری ساری سوچیں میں تجھ کو جب بھی اپنا سوچتا ہوں مری بینائی گھٹتی
اپنا رہا نہ کوئی ،سب ہو گئے پرائے ہر شخص بے وفا ہے، سب سے خدا بچائے مطلب کی دوستی ہے ،ہم راز ہیں فریبی ہر ایک دوست بن کر