براؤزنگ ٹیگ

اداس نظم

مرے اندر بھی اک دلکش نگر آباد رہتا ہے

مرے اندر بھی اک دلکش نگر آباد رہتا ہے مصائب کا اداسی کا بھنور آباد رہتا ہے کسی کے طنز کرنے سے پریشاں ہم نہیں ہوتے ہزاروں زخم کھا کر بھی جگر آباد رہتا ہے امیروں کو حویلی میں بٹھا دیتی ہے بس قسمت غریبوں کے گھروں میں پر ہنر آباد رہتا…

اک پرندہ اُڑ چلا آندھی کا جھونکا دیکھ کر | اداس شاعری

اک پرندہ اُڑ چلا آندھی کا جھونکا دیکھ کر کوئی پیاسا مر گیا پانی کو گہرا دیکھ کر کون مظلوموں کی ہمدردی کرے گا اب بھلا بِک گئے ہمدرد بھی ظالم کا چہرہ دیکھ کر مِل رہی ہے چھت مری قاتل کے گھر کے بام سے ڈر گئے تھے میرے مہماں خون بہتا…

اسے رستہ بدلنا تھا بدل کر راستہ خوش ہے | اداس شاعری

اسے رستہ بدلنا تھا بدل کر راستہ خوش ہے مرے دل کو کچلنا تھا کچل کر بے وفا خوش ہے سنو! ان کو فقط میرا یہی پیغام دے دینا اداسی ہے نگاہوں میں، مگر یہ آتما خوش ہے اسے بھی رنج تھا شاید، بہت غمگین تھا اس دن خفا وہ بھی، دکھی میں بھی مگر وہ…

میں دیں کا داعی،میں حق کا پیکر، لہو میں تڑپایا جارہاہوں

میں دیں کا داعی،میں حق کا پیکر، لہو میں تڑپایا جارہاہوں قصور میرا بتا دے کوئی نشانہ کیوں کر بنا ہوا ہوں مرے چمن کی ہمشہ میں نے کی آبیاری لہو سے اپنے اندھیر شب میں چراغ بن کر میں اپنی جاں کو جلا رہا ہوں کوئی تو سن لے فغائیں میری ،…

اگر تم میری باتوں کو نہ پھیلاتے تو بہتر تھا | دوست کے لئے اداس شاعری

اگر تم میری باتوں کو نہ پھیلاتے تو بہتر تھا مجھے خلوت میں میرے دوست سمجھاتے تو بہتر تھا محبت کی لگی کھیتی کو کیوں برباد کر ڈالا؟ اسی کھیتی کے دہقاں کو جو بلواتے تو بہتر تھا رقیبانہ کہا اس نے تو تم تسلیم کر…

کہا اس نے بتاؤ کیا مجھے تم بھول جاؤ گے؟ شکوہ جواب شکوہ

کہا اس نے بتاؤ کیا مجھے تم بھول جاؤ گے؟ کہا میں نے کوئی شاہ رگ کو کیسے بھول سکتا ہے کہا اس نے کہ پھر شاہ رگ بچاتے کیوں نہیں آخر کہا کہ پاؤں اور بازو بھی کب آزاد ہیں میرے؟ کہا اس نے کہ آخر کب تلک یوں وقت گزرے گا کہا میں نے کہ مشکل…

محبتوں کے ادھورے قصے

محبتوں کے ادھورے قصے کتاب دل پر رقم رہے ہیں ۔۔۔رقم رہیں گے ترے بچھڑنے کے بعد ہم نے بنائی کھڑکی ہے نئی نویلی نیا بنانے کو کوئ منظر پرانی تصویر اور منظر ؟ رکھیں گے شاداب کب تلک تک؟ بہار دیں گے؟ سنوار دیں گے؟ طویل جینے کو کوئی…

طویل مدت گزار دی ہے فراق کا کب زوال ہوگا

طویل مدت گزار دی ہے فراق کا کب زوال ہوگا یہ ہجر کے دن کٹیں گے  اور کب محبتوں کا وصال ہوگا ہر ایک کوچہ لہو سے تر ہے کوئی نہیں جو حساب مانگے بس اک قیامت کا ہے بھروسہ کہ قاتلوں سے سوال ہوگا بتاؤ کیوں کر جلائے…

بچے جو مفلسی سے ہم تو عاشقی سے مر گئے

بچے جو مفلسی سے ہم تو عاشقی سے مر گئے یوں ہم شریف لوگ اپنی سادگی سے مر گئے چہار سمت تیرگی بچھی قدم قدم پہ تھی چراغ جب جلے تو خود ہی روشنی سے مر گئے پرند پھول پیڑ کچھ نہیں دِکھا ، اجاڑ بس جو تیرے شہر آگئے تو خامشی سے مر گئے دراز…