کانچ کی آغوش میں رہ کر بھی پتھر سے لڑا | امید پر شاعری

0 20

کانچ کی آغوش میں رہ کر بھی پتھر سے لڑا
ناامیدی کی فضا میں بھی مقدر سے لڑا

بزدلی کو مصلحت کہہ کر سبھی خاموش تھے
رب نے دی توفیق میں بے خوف اکثر سے لڑا

گردشِ حالات کا شکوہ کسی سے نہ کیا
نعمتِ توحید لیکر جادو منتر سے لڑا

سب مجھے پاگل سمجھنے پر ہوئے تھے متفق
جب برائے دین میں سرکاری افسر سے لڑا

گفتگو میں نرمیاں اور جستجو میں گرمیاں
قطرہِ گمنام ہوکر بھی سمندر سے لڑا

جیت میرے پاؤں میں آکر گری ہدہد میں جب
ہار جاؤں گا کسی دن،  اس تصور سے لڑا

کانچ کی آغوش میں رہ کر بھی پتھر سے لڑا
ناامیدی کی فضا میں بھی مقدر سے لڑا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.