ہِجر ہے باعثِ آزار نہیں جانتے تھے
بچپنا ٹھیک تھا جب پیار نہیں جانتے تھے
مُجھ کو اک بِھیڑ میسر تھی مگر تنہا تھا
اور یہ بات مرے یار نہیں جانتے تھے
کوئی اپنا تھا جو ہر بات بتاتا تھا اُنہیں
میرے بارے میں جو اغیار نہیں جانتے تھے
میں ترے بعد اداکار ہوا ایسا کہ لوگ
ایک بیمار کو بیمار نہیں جانتے تھے
آج وہ ساقی بنے بیٹھے ہیں میخانے میں
تیری آنکھوں کا جو معیار نہیں جانتے تھے
وحشت و ہجر کے ملنے سے بنا عشق کا جسم
کتنی کس شے کی تھی مقدار نہیں جانتے تھے
ہم نے تو اتنا کہا تھا کہ ” خُدا پوچھے گا ”
اتنی بڑھ جائے گی تکرار نہیں جانتے تھے
روزِ محشر وہی ناکام نظر آئے مُجھے
لوگ جو حیدرِ کرَّار ؓ نہیں جانتے تھے
ہِجر ہے باعثِ آزار نہیں جانتے تھے
بچپنا ٹھیک تھا جب پیار نہیں جانتے تھے