ہمیں بھی صبر آجائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
دکھی من چین پا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
محبت کی ہَوا کا جھونکا آئے اور نفرت کے
سب انگارے بجھا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
جو روزانہ نکلتے ہیں ان اخباروں کے پَنّوں میں
حقیقت کو لکھا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
جوانوں کی نسوں میں انقلابی اور جوشیلا
لہو گرما دیا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
تماشا پھر سے محفل میں محبت کرنے والوں کا
نہ دوبارا کیا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
چمن میں دیدہ ور نرگس کو دیکھے اور حسرت سے
خود ہی آنسوں بہا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
گلستاں کی فضا میں کاش خوشبو کا فسوں دانش
بِنا پھولوں کے چھا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
ہمیں بھی صبر آجائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
دکھی من چین پا جائے کوئی ایسا کرشمہ ہو
شاعری : شیخ دانش عاصی اورنگ آبادی
اگر آپ مزید ادس اردو شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں