علی عمران شاہینکالم، بلاگ

بھارت میں جی 20 اجلاس, گاندھی کی سمادھی پر حاضری اور دو محمد غیر حاضر

بھارت میں جی 20 اجلاس, گاندھی کی سمادھی پر حاضری اور دو محمد غیر حاضر

بھارت میں جی ٹونٹی اجلاس ختم ہو گیا۔ بھارت نے اس اجلاس پر کھربوں روپے پھونک ڈالے۔حالانکہ یہ اجلاس تو بھارت میں ہر صورت ہونا ہی ہونا تھا کہ سال کی صدارت اور میزبانی اس کے پاس تھی۔ بھارت کے اپنے لوگ رو پیٹ رہے کہ عوام غربت میں پس رہے اور وزیر اعظم دولت پیسہ شو شا ، فضول کی عیاشیوں اور اپنی شخصیت کی بے تحاشا مشہوری پر اڑا رہا ہے۔ ہر طرف اس نے اپنی تصاویر والے ہی بےحساب بورڈ نصب کروائے۔ ہر اشتہار میں اپنی ہی تصویریں چلائیں۔ نئی دہلی میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں لوگ جو کچے اور کمزور گھروں میں رہتے ہیں کو چھپانے کے لیے بڑی بڑی دیواریں کھڑی کی گئیں۔ ان کی زندگی اجیرن کی گئی۔ یہاں جو خصوصی عمارت تعمیر ہوئی وہ شدید بارش سے بری طرح ٹپک پڑی اور بھارتی حکام منہ اٹھائے تکتے خجل خوار ہوتے رہے۔

چین اور روس کے صدور نے تو پہلے ہی آنے سے انکار کیا اور اپنے نمائندے بھیجے۔ بھارت نے سی پیک کے مقابل نئے تجارتی کوریڈور کا تصوراتی نظریہ پیش کیا جو صدیوں سے پہلے ہی رائج تھا اور اس کے علاوہ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
آخری روز بھارتی وزیر اعظم نے کانفرنس میں شریک تمام سربراہان مملکت کو راج گھاٹ پر جمع کیا اور گاندھی کی سمادھی( جہاں گاندھی کی لاش کو جلایا گیا تھا ) پر سلامی دلوائی۔ سب سربراہان کے گلے میں خصوصی مفلر ڈالے ،انہیں ننگے پاؤں چلنے کو کہا اور جو ننگے پاؤں نہیں چل سکتا تھا اسے خصوصی سفید موزے پہنائے۔ جب یہ سب لوگ جمع ہوئے تو یہ بات بعد میں میڈیا کے علم میں آئی کہ یہاں تو دو سربراہ موجود ہی نہیں۔ ایک دنیا بھر میں تیز ترین ترقی کرنے والا سعودی عرب اور دوسرا متحدہ عرب امارات کا سربراہ۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جی ٹونٹی اجلاس ختم ہونے کے بعد اگلے روز بھی دہلی میں موجود رہے۔ اور سب سے آخر میں اپنے ملک واپس جانے والوں میں شامل تھے۔ لیکن وہ راج گھاٹ نہیں پہنچے۔ جب کہ متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید آل نہیان بھی وہاں نہیں آئے۔ متحدہ عرب امارات اگرچہ جی ٹونٹی کا حصہ نہیں لیکن اسے بھی بھارتی وزیر اعظم نے چند دیگر ممالک کی طرح الگ سے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ راج گھاٹ میں سلامی کے لئے آنے والوں میں بنگلا دیش کی حسینہ واجد، ترکی کے رجب طیب اردوان اور مصر کے جنرل ر عبدالفتاح السیسی بھی شامل تھے۔

اس سلامی کے سارے پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی ہندی نے رپورٹ کیا کہ محمد بن سلمان عقیدے میں  سلفی یا اہل حدیث فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ایسی یادگاروں وغیرہ پر یوں جانا، ان پر سلامی پیش کرنا ، ان کی عقیدت و محبت رکھنا بالکل جائز نہیں۔ اور انہوں نے اسی وجہ سے یہاں شرکت نہیں کی۔ جب کہ خصوصی طور پر رجب طیب اردوان کا کہا گیا کہ انہیں ان کی فقہ کے مطابق ایسی باتوں سے کوئی مسئلہ نہیں اس لیے وہ یہاں شریک رہے۔

بھارت میں جی 20 اجلاس, گاندھی کی سمادھی پر حاضری اور دو محمد غیر حاضر
جب یہ سب لوگ راج گھاٹ پر جمع ہوئے تو یہ بات بعد میں میڈیا کے علم میں آئی کہ یہاں تو دو سربراہ موجود ہی نہیں۔ ایک دنیا بھر میں تیز ترین ترقی کرنے والا سعودی عرب اور دوسرا متحدہ عرب امارات کا سربراہ۔

یہاں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے اس ساری کانفرنس کو مکمل ہندو مذہب کے رنگ میں رنگے رکھا۔ ہر طرف اپنے مذہب کے تصوراتی دیوی دیوتاؤں کے بت ، مندروں کی مورتیوں سے سجی شبہییں ، گوشت کے بغیر کھانے اور ایسا ہی دیگر سب کچھ۔ لیکن کسی نے کوئی اعتراض کیا نہ تبصرہ کہ بھارت نے ایسا کیوں کیا؟ یہاں اتنی شدومد سے کیوں اپنا مذہب گھسیڑے رکھا؟ بھارتی وزیر اعظم اکثر مندروں کے دورے پر رہتا ، ان کے افتتاح کرتا ، پنڈتوں کے قدموں میں لیٹ لیٹ کر سجدے کرتا رہتا لیکن اس پر بھی کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ کیسا مذہبی جنونی شدت پسند وزیر اعظم ہے؟

اسے اپنے مذہب سے اتنی عقیدت ہے کہ اس نے اقوام متحدہ سے باقاعدہ یوگا کا عالمی دن منظور کروا لیا۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اگر کھیل کے میدان میں کبھی سجدہ بھی کر لیں تو ہر طرف ہاہا کارمچ جاتی ہے کہ دیکھو  یہ مذہب کو کہاں لے آئے؟ اور یہ شور غوغا کرنے والے اکثر اپنے مہربان ہی ہوتے ہیں۔

جی ٹونٹی اجلاس کے اس موقع پر محمد بن سلمان اور محمد بن زاید آل نہیان نے دنیا کو ایک بہترین پیغام تو دے دیا کہ تم ہم سے الگ عقیدہ و مذہب رکھتے ہو تو ہم بھی ایک اپنا عقیدہ اور مذہب رکھتے ہیں۔  اور ہم تمھارے پابند بھی نہیں کہ تم جہاں مرضی گھسیٹتے پھرو۔ اب اللہ کرے کہ یہ سب دیگر لوگوں کو بھی سمجھ آ جائے کہ بھارت ان دونوں کا گاندھی کی سمادھی پر نہ جانے پر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکا اور نہ انہیں مجبور کیا جا سکا۔ باقی سب بھی ایسی ہی کوئی سوچ اپنا لیں(  کہ مذہب اگر ذاتی معاملہ ہے تو اسلام بھی مذہب ہے اور اسے ذاتی معاملہ قرار دیا جائے) تو اس سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔۔ مودی یا بائیڈن ان کا کوئی نقصان نہین کرنے والا۔

 

تحریر: علی عمران شاہین

دینی مدارس اور ان کے طلبا مرکزی دھارے میں کیا آئے… مرکزی دھارے والوں کو ہی پیچھے چھوڑ گئے

 

Shares:
8 Comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *