پاکستان کی ڈالر کی دلدل سے نکلنے کی کوشش
ہمیں آزار ہوئے 75 سال ہو گئے مگر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ڈالر کا ریٹ ہے۔ یعنی ڈالر کی دلدل. قیام پاکستان کے وقت ڈالر کا ریٹ تقریبا 3 روپیہ اور 33 پیسے تھا. لگ بھگ چار سال ڈالر کی یہی قیمت رہی اس کے بعد روپیہ کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہی چلا گیا.اور ایسا ہوا کہ غریب کی چیخیں نکل گئی. بلکہ یوں کہیں کہ غریب بیچارہ مر ہی گیا. جبکہ امیر کی چیخیں نہیں بلکہ ہنسی نکلتی ہے. کیونکہ بیرون ملک پڑا اس کا پیسہ ڈالروں میں ہے ناکہ پاکستانی روپیہ میں.
اگر کسی کے پاس پاکستانی روپیہ میں دولت ہے بھی تو وہ اربوں سے کھربوں روپیہ میں بڑھ رہی ہے مگر کیسے؟ تو ایسے جناب جس کے پاس پیسہ وافر ہے وہ ڈالر خریدتا ہے اور جمع کر لیتا ہے۔ اور چند دنوں بعد ہی اسکا خریدا ہوا ڈالر روپیہ کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے۔ اور یوں اسے گھر بیٹھے بٹھائے اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ اب تو لوگوں نے کاروبار ہی بنا لیا کہ ڈالر خریدوں اور چھپا لو۔ جس کے باعث ملک میں ڈالر کی لمٹ کراس ہو گئی اور مہنگائی کا طوفان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جبکہ اسکے برعکس غریب کے پاس ہزاروں بھی نہیں کہ وہ کوئی چھوٹا موٹا پارٹ ٹائم کام کر سکے۔
مہنگائی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے
ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جب ہماری من پسند گورنمنٹ آتی ہے تو ہمیں مہنگائی بلکل بھی مہنگائی نہیں لگتی اور مخالف پارٹی کی گورنمنٹ بنتے ہی ہمیں مہنگائی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے جو کہ منافقت کی اعلی مثال ہے جبکہ مہنگائی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ ہمارے لوگوں کا مشغلہ بن چکا کہ اپنی مخالف حکومتوں کو ناکام کرنے کیلئے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ اور بہت سی چیزوں کیساتھ ڈالر کو بھی بلیک مارکیٹ کرکے چھپایا جاتا ہے۔ جیسے کہ پچھلے دنوں گندم چھپا لی گئی تو جس کے پاس تھی اس نے اپنی مرضی کی قیمت پہ گندم و آٹا فروخت کیا اور اب گندم مارکیٹ میں آنے سے ریٹ بھی نیچے آ گئے۔
یہی صورتحال ڈالر کی بھی ہے۔
ہر دور حکومت میں ایک مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ مخصوص لوگ جن کے پاس پیسہ ہے وہ ڈالر کو خرید کر جمع کرتے ہیں۔ تاکہ پاکستانی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر قیمت اور بڑھے۔ اور ان کا یہ وار کامیاب ہوتا ہے جس سے ڈالر کی قیمت بڑھنے کیساتھ مقروض قوم کا سرکاری قرض بھی بڑھ جاتا ہے۔
آخر سوچنے کی بات ہے کہ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟
یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جو کہ بہت اہم بھی ہے۔
ڈالر کی دلدل سے نکلنے یعنی اسکی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے سب سے پہلے ڈالر پہ انحصار کم سے کم کرنا ہو گا
ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے سب سے پہلے ڈالر پہ انحصار کم سے کم کرنا ہو گا۔ جس کا سب سے اچھا نعم البدل اپنے قریبی ممالک سے مال کے بدلے مال لینا اور دینا ہے۔ یعنی کہ بارٹر ٹریڈنگ
جو کہ ابھی حال ہی میں کی گئی ہے۔ جس کے دورس نتائج نکلیں گے ان شاءاللہ
اسی بارٹر ٹریڈنگ کا اعلان موجودہ گورنمنٹ نے کیا ہے اور کچھ کرکے دکھلایا بھی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ
اللہ کرے کہ یہ اعلان عملی کام ثابت ہو نا کہ محض اعلان ہی۔
بارٹر ٹریڈنگ سے ایک تو ہمسایہ ممالک سے تعلقات مذید اچھے ہونگے۔ دوسرا ڈالر کا انحصار کم ہوگا۔ کیونکہ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا کدو بھی ڈالر کے ریٹ کے حساب سے بڑھتا اور گھٹتا ہے۔
گزشتہ دنوں موجودہ گورنمنٹ نے چین کی 100 کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا موقع دینے کا اعلان کیا جس سے ڈالر کا انحصار کم ہو کر چائنیز کرنسی پہ ہو گا۔
اگر دیکھا جائے تو 1960 میں ہماری معیشت بہت اچھی تھی۔ اور ہمیں بہت بڑا موقع میسر تھا چائنہ کیساتھ اس قسم کی تجارت کا۔ مگر ہم نے وہ موقع گنوا دیا پھر اس کے بعد 1991 میں پاکستانی گورنمنٹ نے معاشی اصلاحات کرکے لبرالائز و ڈی ریگولیٹڈ نجکاری کو اپنایا تھا۔
اب ایک بار پھر سی پیک کی بدولت ہمارے پاس آگے بڑھنے کا بہت بڑا موقع ہے۔ اور اللہ کرے ہم اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں جس کے لئے ہمارا اندرونی اتحاد لازم ہے۔ کیونکہ کوئی ایک ادارہ،کوئی ایک فرد چاہے وہ کتنا ہی بااثر ہے وہ اکیلا آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اتحاد نا ہو۔
تاجر برادری بغیر سیاسی مفاد کے گورنمنٹ کے ساتھ چلے
سو اس وقت ہمیں یک سو ہو کر بارٹر ٹریڈنگ پہ خاص دھیان دینا ہو گا۔ کیونکہ پاکستان میں قدرتی معدنیات کی کمی نہیں۔ اور قدرت کی اس کرم نوازی سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی معدنیات دیگر ممالک کو بیچیں اور اپنی ضرورت کی چیزیں ان سے خریدیں۔ جیسے کہ پاکستان میں اعلی قسم کا نمک وافر ہے۔ اور ہمارے ہمسایہ ممالک میں اتنا نمک نہیں۔ سو اپنے نمک کو بیچ کر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدیں۔
اس کام میں سب سے زیادہ اہم کردار تاجروں کا ہے اور وقت کی ضرورت ہے کہ تاجر برادری بغیر سیاسی مفاد کے گورنمنٹ کے ساتھ چلے اور اس تحریک کو کامیاب کرے۔
نیز کھیلوں کا سامان، آلات جراحی بھی بیرون ملک ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ موجودہ بارٹر ٹریڈنگ کی طرح ان چیزوں کا لین دین بھی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں کیا جائے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے چائینز یوان میں تجارت کی جس سے امریکیوں کو بہت دکھ ہوا۔
اللہ امریکیوں کے اس دکھ میں مذید اضافہ فرمائے۔ اور پاکستان کو ڈالر کی دلدل سے نکال کر دن دگنی رات چوگنی ترقی
آمین ثم آمین
تحریر: غنی محمود قصوری
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا حل کیا ہے ۔۔۔؟ یہ بھی پڑھیں