پاکستان اپنا قرضہ کیسے چکا سکتا ہے؟

2 29

موجودہ دور میں پاکستان اپنا قرضہ کیسے چکا سکتا ہے؟ سوال تو یہ آج کا  ہے لیکن اس کا جواب موجودہ دور کی بجائے تاریخ اسلامی بلکہ اس سے بھی قبل تاریخ انسانی میں جھانکنے سے بھی مل جائے گا۔تو چلیں ذرا ماضی کے دریچوں کو۔ کیا آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ سورۃ روم میں رومیوں کے مغلوب ہونے کی خبر دینے کے ساتھ ہی ان کے غالب ہونے کی دی جانے والی خبر (نیم بشارت ) زمینی طور پر کیسے عمل میں آئی؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایرانی آتش پرستوں کی فتح کے بعد اچانک ان کی رومی صلیبیوں کے ہاتھوں شکست کے پیچھے زمینی اسباب و حقائق کیا تھے؟

تو سنیں

رومی بادشاہ جسے ہرقل کہا جاتا تھا پے در پے ایرانیوں سے شکست کھانے کے بعد اپنے مذہبی پیشواؤں یعنی پاپائے اعظم کے پاس گیا اور ان سے ریاست کے لیے بھیک مانگی. صلیب کا نام استعمال کرتے ہوئے مذہبی صلیبی جنونی پادریوں کو اکسایا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے. اگر ریاست رہی تو یہ گرجے بھی رہیں گے اور گرجوں میں چھپا خزانہ بھی واپس آ جائے گا اور اگر ریاست نہ رہی تو نہ عبادت گاہیں ہوں گی، نہ گرجے ہوں گے، نہ صلیب ہو گی اور نہ گرجوں میں چھپا ہوا سونا بچے گا اس لیے مجھ پر یقین کریں اور مجھے سونا فراہم کریں جس کی مدد سے میں اپنی ریاست اپنے پیروں پر کھڑی کر سکوں اور دشمن کے خلاف ایک فوج تیار کر سکوں….. صلیب کی فتح کے لیے….!

پاکستان اپنا قرضہ کیسے چکا سکتا ہے؟
صلیبی پادریوں نے چرچ میں سونے کو چھپائے رکھنے میں کبھی غفلت نہیں کی۔ ہر دور کے چرچ خزانوں سے بھرے ہوئے ملے

پرانے وقتوں میں پادری اپنی عبادت گاہوں میں کیسے اور کتنا خزانہ چھپا کر رکھتے تھے اس کی ایک جھلک لنک پر کلک کر کے لازمی دیکھیں 

بہرحال ہرقل کی یہ بات پادریوں کو سمجھ آ گئی اور انہوں نے چرچ سے گزر کر جانے والے خزانوں کے دروازے کھول دیئے. اس کی بدولت رومی بادشاہ ہرقل نے ایرانیوں سے بظاہر پسپا ہو کر کچھ ہی عرصے میں  پلٹ کر ایسا وار کیا کہ دس سال کے اندر ایرانیوں کی ساری عظمت و طاقت خاک میں مل گئی….! رومی غالب آ گئے. اور  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو بیان کی تھی…. پیشین گوئی مکمل ہوئی.

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ

یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر جب مدینہ کی گلیوں میں حی علی الجہاد کی آواز اٹھی تو ساتھ یہ اعلان بھی ہوا کہ جو جتنا مال پیش کر سکتا ہے وہ بھی اللہ کی راہ میں پیش کرے تو صحابہ کرام نے مال وزر کے ڈھیر مسجد نبوی میں لگا دئیے. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آدھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا پورا سامان اللہ کے نبی کے قدموں میں ڈھیر کر دیا.

آج وہی وقت ہے. اور آج بھی وہی طریقہ کارآمد ہے۔ اگرچہ بہت مشکل ہے لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب اتنے بڑے چیلنجز ہوں تو اتنا ہی بڑا دل رکھنا پڑتا ہے۔ مشکل وقت میں مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔  کسی بھی گرتی پڑتی سسکتی ریاست کو کھڑا کرنے کے لیے معیشت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ معیشت باہر کی بجائے اندر سے اپنی ہی عبادت گاہوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بس ایک بار اپنوں کے سامنے جھکنے اور ان کے آگے ہاتھ پھیلانے کی جرات ہونی چاہیے.

 

آج کے حالات میں پاکستان اپنا قرضہ کیسے چکا سکتا ہے؟

آج اگر ملک کے ڈیفالٹ ہونے اور معاشی بحران کا خطرہ ہے تو ان لوگوں کی مدد حاصل کرنی چاہیے جن کی نظر میں ناموس رسالت زندگی بھر کی کمائی حتی کہ اس زندگی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے.

اگر معیشت کی وجہ سے پاکستانی ریاست آئی ایم ایف جیسے اسلام دشمنوں کے آگے جھک سکتی ہے تو ان کے آگے کیوں نہیں جھکتی جنہیں اسلامی پاکستان سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں؟  ریاست سے باہر در بہ در جا کر ملکی قرضہ چکانے کے لیے کشکول اٹھانے کی بجائے ریاست میں موجود خاتم النبیین، سید المرسلین، رحمتہ العالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں سے کیوں نہ قرض لیکر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے جائیں؟  اور ریاست کو اپنے قدموں پر کھڑا کر لیا جائے…؟

اگر کائنات کا مقدس ترین، عظیم ترین انسان اللہ کے دین کے لیے مدینہ میں بیٹھ کر اپنے اصحاب کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔  تو موجود حکمران اپنی اسمبلیوں میں بیٹھے تمام اسلام پسند وزراء اور اسمبلیوں سے باہر تمام محبان وطن اور محبان اسلام لوگوں سے پیسے لے کر آئی ایم ایف سے جان چھڑانے میں کیوں عار محسوس کرتے ہیں۔۔۔؟

اسلام کے نام پر اس ہستی کے نام پر جس کے وسیلے سے ہمیں ہدایت ملی اسلام ملا…. نہ کسی حکمران کے لیے باعث عار ہے کہ اپنی رعایا سے بھیک مانگے اور نہ جانثاران محمد کے لیے کچھ مشکل ہے کہ وہ اپنے خزانے کھول دیں. اور آئی ایم ایف سے یہ معاشی جنگ جیت کر اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں.

ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھی نہ ہو
يہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحيد بھی دنيا ميں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خيمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

 

دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے
بحر ميں، موج کی آغوش ميں، طوفان ميں ہے
چين کے شہر، مراکش کے بيابان ميں ہے
اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے

چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے
رفعت شان ‘رفعنالک ذکرک’ ديکھے

 

تحریر : سلیم اللہ صفدر

2 تبصرے
  1. sklep internetowy کہتے ہیں

    Wow, amazing weblog format! How lengthy have you been running a blog for?
    you made blogging look easy. The total look of your website is magnificent, let alone the content material!

    You can see similar here e-commerce

  2. ecommerce کہتے ہیں

    Very descriptive article, I liked that bit. Will there be a part 2?
    I saw similar here: Sklep internetowy

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.