اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور… صرف ایک یونیورسٹی نہیں

Islamia university Bahawalpur video scandal

0 168

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور… صرف ایک یونیورسٹی نہیں. ہر وہ یونیورسٹی جس میں والدین نہایت خوشی کے ساتھ اپنی بچیاں بھیجتے ہیں… یہی کچھ ہی ہو رہا ہے. فرق بس اتنا ہے کہ کہیں بات باہر نکل گئی اور کہیں ابھی تک والدین تک نہیں پہنچی. صرف ایک آفیسر کا معاملہ نہیں . جس کا جہاں تک جتنا بس چلتا ہے وہ اس کام میں شامل ہو کر معصوم بچیوں کی عصمت دری کرنے کی مکمل کوشش کرتا ہے. میں اس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتا تھا کہ ہر کسی کے گھر میں بیٹیاں موجود ہیں جو یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہیں. لیکن کیا کریں کچھ باتیں بتانا بلکہ جھنجھوڑ کر بتانا ضروری ہوتا ہے. ورنہ بعد میں کچھ ہاتھ نہیں آتا.

ایسی کیا مجبوری ہے کہ سالہا سال سے لڑکیاں یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں اور والدین کو علم ہی نہیں کیا قیامت آ کر گزر چکی؟

دکھ اس بات پر الگ کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سیکورٹی آفیسر نے ہاسٹل کی لڑکیوں کی سینکڑوں نازیبا وڈیوز بنائیں اور انہیں موبائل میں سنبھال کر لڑکیوں کو بلیک میل کیے رکھا. دکھ یہ بھی ہے کہ سالہا سال سے یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں اس معاملے پر کیوں خاموش ہیں؟ والدین کا ڈر یا پیپر میں فیل ہونے کا خطرہ؟ جو بھی ہے بہر حال والدین کی تربیت میں کمی ہے اور کچھ نہیں. ماں کے ساتھ تو ہر بات شئیر کی جا سکتی ہے تو آخر یہ بات کیوں نہیں ؟ اگر لڑکیوں کی خواہش نہیں تو رضامندی ضرور ہے… اگر رضامندی نہیں تو مجبوری ضرور ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ سالہا سال سے لڑکیاں یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں اور والدین کو علم ہی نہیں کیا قیامت آ کر گزر چکی؟

جب بھی والدین کو سمجھانے لگیں کہ آپ اپنی بچیوں کی شادی کا سوچیں شادی کے بعد ان کا شوہر چاہے گا تو انہیں کسی یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دے گا آپ  ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش میں ان کا حال خراب نہ کریں تو آگے سے یہ بکواس سننے کو ملتی ہے کہ جی ہماری بچیوں کی دینی حوالے سے اتنی تربیت ہے کہ موبائل، واٹس اپ ،میسنجر ،وڈیو کیمرہ کے دور میں وہ ہر قسم کے گناہ سے بالکل پاک صاف رہیں اور مردوں کے درمیان رہ کر اپنی حفاظت کر سکیں۔ یہ لیں ہو گئی حفاظت!

بچیوں کے والدین کے دور میں بے حیائی و بے راہ روی کی گاڑی میں پاؤں بریک پر تھا اور آج ایکسیلیٹر پر ہے

یہ وہ والدین ہیں جنہوں نے نوکیا 3310 کے ساتھ جوانی گزاری اور اب وہ سمجھتے ہیں کہ دل میں تقویٰ بھر دو تو موبائل جو بھی استعمال کرو لڑکیوں کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا. یہ نہیں سوچتے کہ ان کے دور میں بے حیائی و بے راہ روی کی گاڑی میں پاؤں بریک پر تھا اور آج ایکسیلیٹر پر ہے . وہ یہ سوچتے ہیں کہ جتنے نیک ہم تھے ہماری اولاد بھی ویسی ہی نیک ثابت ہو گی.

سیدھا اور سمپل سوال ہے کہ اتنی وڈیوز بن کیسے گئیں؟ کسی لڑکی نے اپنے والدین کو بتایا کیوں نہیں کہ آپ کی تربیت یافتہ بیٹی یونیورسٹی میں پیپر میں فیل ہونے کے ڈر سے بلیک میل ہو رہی ہے…؟ بھلا کتنی لڑکیوں نے یونیورسٹی خاموشی سے چھوڑ دی اور گھر آ کر بیٹھ گئیں؟ ایک بھی نہیں…! کیوں کہ بلیک میل ہونا اور مسلسل ہوتے رہنا "تربیت یافتہ” بیٹی کی نظر میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں. یونیورسٹی سے اچھے نمبر لیکر پاس ہونا اور ڈگری لیکر والدین کو خوش کر دینا ہی اصل کامیابی ہے.

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باقی تمام لڑکیوں کے مقابلے میں آپ کی بیٹی کی تربیت اچھی ہے تو جان لیجیے سب والدین یہی سوچتے ہیں. پاکستان میں رہنے والے کوئی بھی والدین نہیں پسند کرتے کہ ان کی بیٹی ہوسٹل جا کر ایسے غلط کام کرے اور اسی نہج پر اس کی تربیت کرتے ہیں. لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ ہو جاتا ہے اور ہو رہا ہے.

جنہوں نے مردوں کا مقابلہ بلکہ انہیں شکست دینی ہو وہ بھلا کیوں اتنی "چھوٹی سی بات” پر اتنی بڑی یونیورسٹی چھوڑ دیں؟

تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہوسٹل پہنچ کر آپ کی بیٹی کی تربیت اور تقویٰ اس کی آنکھوں میں چمکتے روشن مستقبل کے خواب کے سامنے ہار جاتا ہے. وہ مسلسل روشنی دیتے ستاروں کو چھوڑ کر اندھیری رات میں جنگل میں چمکتے اس جگنو کے پیچھے بھاگ کر اپنا راستہ کھو دیتی ہے جو خود اس سے روشنی مستعار لینا چاہتا تھا.

سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا ہو جائے گا اگر کسی لڑکی کو پہلی بار جنسی طور پر ہراساں کیا گیا اور وہ گھر جانے کے بہانے یعنی چھٹی کے موقع پر گھر پہنچی اور واپس ہی نہیں آئی؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ یونیورسٹی سے ایکسپل کر دیں گے… ہوسٹل یا یونیورسٹی والے گھر سے اٹھا کر تو نہیں لے جائیں گے. لیکن جس لڑکی اور جن والدین کی آنکھوں میں مردوں کے درمیان رہ کر پر کشش جابز کے خواب چمکتے ہوں… جنہوں نے مردوں کا مقابلہ بلکہ انہیں شکست دینی ہو وہ بھلا کیوں اتنی "چھوٹی سی بات” پر اتنی بڑی یونیورسٹی چھوڑ دیں؟

ماں کی نظروں سے لیکر شوہر کی بانہوں تک کے درمیان اگر کوئی خلا پیدا ہوا تو سمجھ جائیں آپ نے آبگینہ ٹوڑ دیا

خدارا بچا لیں اپنی بیٹیاں ان درندوں سے…آپ کی بیٹیاں ابگینے ہیں… آپ کو امانت کے طور پر دئیے گئے تھے کسی اور کو سونپنے کے لیے… آپ نے انہیں چراغ خانہ کی بجائے شمع انجمن بنانے کی ٹھان لی اور آپ سمجھتے ہیں کہ پتنگے بھی نہیں آئیں گے؟ تیرہ سال کی عمر کے بعد ہر لڑکی کے اندر وہ جذبات ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں جنہیں سمجھنا ماں کے علاوہ اور کسی کے بس میں نہیں. اور ہمارے معاشرے میں بیٹی کے فیصلے کا حق ماں کے پاس سب سے کم ہوتا ہے. وہ جذبات بنتے رہتے ہیں بیٹیاں جوان ہو جاتی ہیں اور والدین سمجھتے ہیں کہ شاید ان لڑکیوں کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے جو نظر ہوس کو بے اثر کر دے گا.

حالانکہ فطری طریقہ یہی ہے کہ بیٹی کو مسلسل ماں کے ساتھ رکھا جائے جب تک کہ اس کی شادی نہیں ہو جاتی. شادی کے بعد وہ ساری نگرانی کی ذمہ داری جو پہلے ماں سختی سے سرانجام دیتی ہے وہ اب شوہر محبت سے سرانجام دیتا ہے. ماں کی نظروں سے لیکر شوہر کی بانہوں تک کے درمیان اگر کوئی خلا پیدا ہوا تو سمجھ جائیں آپ نے آبگینہ ٹوڑ دیا.

بیٹی کو تقویٰ و تربیت کے بھرم پر کبھی ہوسٹل مت بھیجیں کیوں کہ بیٹی ماں سے جدا ہوتے ہی ریڈار کا سایہ کھو دیتی ہے اور کوئی بھی درندہ کسی بھی وقت اس پر جھپٹ سکتا ہے

مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اس سیکورٹی آفیسر کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہو گی اور اگر ہو بھی گئی تو وہ ایک تو نہیں. نجانے کتنے ہیں. اس لئے یونیورسٹی کے حالات بہتر کروانے کی کوشش اور اس کے انتظار میں اپنی بیٹیوں کی جوانیاں برباد مت کریں اور انہیں اپنی ماں سے دور نہ کریں.

ماں ایک ریڈار ہوتی ہے جس کو فوراً پتا چل جاتا ہے کہ خطرہ سر پر ہے. وہ اپنی بیٹی کو سمجھا بھی سکتی ہے سکھا بھی سکتی ہے لیکن تب جب اس کے سامنے ہو. اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ روزانہ ایک بار ماں بیٹی کی وڈیو کال پر بات ہو جاتی ہے اور صرف ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہے کسی اور لڑکے کے ساتھ نہیں تو آپ سے بڑا بیوقوف اور کوئی نہیں.

میں یہ نہیں کہتا کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی ہر لڑکی کا دامن داغدار ہو چکا ہے لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ والدین نے اسے داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. جان بوجھ کر ایسی جہنم میں بھیج دیا جہاں شعلوں کے سوا کچھ نہیں. یا تو آپ بیٹی کو ماں سے دور کرتے وقت ہوسٹل میں بھیجتے وقت اس کے جسم سے اس کا دل اور زنانہ اعضاء نکال لیں… پھر تو ممکن ہے کہ آپ کی بیٹی درندوں سے بچ جائے… یا پھر اس کی شادی کروا کر اس کے شوہر کی رضامندی سے بھیجیں. پھر بھی خیر ہو گی. ورنہ تقویٰ و تربیت کے بھرم پر کبھی مت بھیجیں کیوں کہ بیٹی ماں سے جدا ہوتے ہی ریڈار کا سایہ کھو دیتی ہے اور کوئی بھی درندہ کسی بھی وقت اس پر جھپٹ سکتا ہے.

تحریر  :سلیم اللہ صفدر

اک درندوں کا جنگل اور معصوم سی جانیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.