خواہشوں کو دل کے قبرستاں میں دفنایا گیا ایک مدت سے جہاں، کوئی نہیں آیا گیا عشق کرنے میں کوئی خامی نہیں ہے ،ہاں مگر اس ڈگر جو بھی چلا
نعمان شفیق
جھاڑیاں ہٹاتا ہے، راستے بناتا ہے کون دل کے صحرا میں گنگناتا جاتا ہے کیا کریں طبیعت کا ،اِس عجب اذیّت کا جس سے بچ کے چلنا ہو، دل اُسی
کس نے رشتوں سے جڑے رہنے کی قیمت مانگی ہم نے چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ہجرت مانگی مل کے اک رات ،چراغوں نے ،خداۓ کُن سے آنکھ ,سورج
لگتا ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ورنہ تو مجھے ایسی نصیحت نہیں کرتے میں خود ہی نظر آنا نہیں چاہتا تم کو تم کون ہو، جو میری
کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟ وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں بس اِتنا
درد نعمت کی طرح زخم خزانوں جیسے اس لئے نوحے بھی گاۓ ہیں ترانوں جیسے ہم جنوں والے ہنسا کرتے ہیں گھاٹے کھا کر كفِ افسوس نہیں مَلتے سیانوں جیسے
ہم کو چاہت تھی کسی اور کی، آیا کوئی ہے بس یہی غم ہے، بتا ! اس کا مداوا کوئی ہے ؟ تو پکار اپنے سبھی چاہنے والوں کو ابھی
مری توجہ میں جس روز کچھ کمی ہوگی یقین کر کہ تری جان پر بنی ہوگی ہمارے گھر جو اندھیرے ہیں،کون مانے گا ؟ ہماری چاند ستاروں سے دوستی ہوگی
اک ذرا مجھ سے دمِ مرگ تماشہ نہ ہوا بس اسی واسطے مُردہ مرا اچھا نہ ہوا تیرے جانے پہ بھی کب حسبِ توقع ہوا کچھ ؟ میں بھی مٹی
اک رويہ تھا جو 'روا' نہ ہوا ورنہ پہلے بھی کم برا نہ ہوا اسکو لاۓ تھے کھینچ تان کے سو وہ دوا ہو گیا،شفا نہ ہوا جانے
Load More