بیٹی رحمت ہوتی ہے لیکن ہم نے زحمت بنا دیا | معاشرے کا ایک تکلیف دہ پہلو
بیٹی رحمت ہوتی ہے اور بیٹا نعمت۔ دونوں دراصل اللہ رب العزت کا انسان کے لئے تحفہ ہیں ۔ لیکن والدین اس پر زیادہ غور نہین کرتے۔ اولاد لڑکی ہو یا لڑکا والدین پہ استطاعت کے مطابق اس کی پرورش و تربیت اور پھر شادی کرنا فرض ہے۔
صنف نازک کا اسلام میں بڑا ہی اعلی مقام ہے جس کے متعلق اللہ رب العزت کے پیارے حبیب کا فرمان ہے کہ
جس شخص نے دو یا تین بیٹیوں یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں یا مر گئیں تو میں اور وہ جنت میں ایسے ہوں گے جس طرح دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (صحیح ابن حبان)
ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تو وہ اور میں اِس طرح جنت میں داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں اُنگلیوں کو ملا کر بھی دکھایا(جامع ترمذی)
تاہم بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس کا الٹ مطلب کر دیا گیا ہے۔ محض پرورش سے شادی تک باپ،بھائی کی ذمہ دار عورت کو مرتے دم تک والدین یا والدین کے رشتہ داروں پہ فرض کر دیا گیا ہے۔
مثال کہ طور پہ ایک بچی ہوئی۔ ماں باپ،بھائی،چچا جو بھی اس کا ولی بنا بلخصوص باپ، نے اس بچی کی اپنی حیثیت کے مطابق پرورش کی۔ پھر اس کو پڑھا لکھا کر بیاہ دیا تو بیاہنے سے قبل ہی لڑکی والوں کیلئے لڑکے کیلئے تحفے تحائف کیساتھ لڑکے والے کے ماں باپ،بہن بھائی ودیگر رشتہ داروں کے کپڑے بنانا اور ان کو اچھا کھلانا پلانا لازم ہے وگرنہ منگنی سے جواب ہو جائے گا۔
پا بیاہنے پہ ہی اس لڑکی کے ہونے والے سسرال جہیز کی ڈیمانڈ کرتے اور پھر جہیز کیساتھ لڑکے والوں کے خاندان کے کپڑے وغیرہ بنائے جاتے ہیں کہ ہمارے بیٹی کو سسرال میں کوئی بات نا کرے اور ہماری بیٹی سکھی بستی رہے۔
نیز اس کے بعد شادی کے پہلے دن سے شروع ہونے والی رسومات جو کہ پہلی عید،پہلی شب برات و دیگر ایام تک چلتی ہے ان کو پورا کرنا بھی لڑکی والوں پہ لازم ہے تاکہ بیٹی سسرال میں کسی کی بات اور طعنے نہ سنے۔
اس کے بعد اس لڑکی کو رب کی رحمت ہونے پہ یعنی حاملہ ہونے پہ سسرال والے والدین کے ہاں بھیج دیتے ہیں۔ جو کہ سراسر زیادتی و ظلم ہے۔ پھر جب بچہ ہو گیا تو اس پیدا ہونے والے نومولود کی رسمیں بھی ننھیال کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں
مذید رسموں پہ بھی لڑکی والوں کا خرچ کروایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔
اب اس لڑکی کے بچے جوان ہونے پہ جب ان بچوں کی شادیاں کرنی ہوتی ہیں تو پھر سے ننھیال کو بتلایا جاتا ہے کہ اتنا عرصہ قبل آپ نے ہمارے مطالبات پورے کئے تھے اب ایک بار پھر بطور ننھیال آپ پہ لازم ہے کہ اپنی نواسی یا نواسے کی شادی پہ فلاں فلاں چیزیں دیں۔
حتی کہ جب وہ عورت مر جاتی ہے تو اس کے مرنے پہ اس کے لواحقین مثلاً باپ،بھائی،بتیجھے وغیرہ پہ لازم ہوتا ہے کہ اس عورت کی وفات پہ کھانا دے وگرنہ طعنے ملتے ہیں کہ یہ تو بے وارث مر گئی اس کی روٹی ہم کیوں دیں؟ بیٹی رحمت ہوتی ہے لیکن رحمت کے ساتھ یہ سلوک چہ معنی دارد؟
شادی کے بعد عورت کا اصل وارث اس کا شوہر ہے اور اس شوہر پہ لازم ہے کہ زندہ رہنے سے مرنے تک اس عورت کی ہر جائز ضرورت پوری کی جائے
مطلب کہ عجیب معاملات ہیں جو بیٹی رحمت ہوتی ہے، جس کی پرورش سے شادی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی بشارت ہے اس رحمت کو ہم نے اپنی رسم و رواج کے باعث زحمت بنا دیا ہے۔
جو غریب دو وقت کی روٹی ٹھیک سے نہیں کما پاتے اور جن کے اپنے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں ان پہ اپنی بیٹیوں کے گھروں کو بسانے کے لئے یہ سب کرنا لازم ہوتا ہے جو کہ غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہے۔
اگر مطالعہ اسلام کیا جائے تو شادی کے بعد عورت کا اصل وارث اس کا شوہر ہے اور اس شوہر پہ لازم ہے کہ زندہ رہنے سے مرنے تک اس عورت کی ہر جائز ضرورت پوری کی جائے مگر افسوس ہمارے ہاں سب الٹ.
آپ لوگ بیٹے کی پیدائش پہ فکر مند ہو جاتے ہیں کہ اتنا کچھ ساری زندگی وہ کیسے کر سکیں گے
خدارا اس رحمت کو زحمت نا بنائیں اور غیرت مند مرد بن کر ان فضول رسم و رواج کو ختم کریں اور اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حق ادا کریں ناکہ ان فضول رسموں کے نام پہ ان کا حق کھا جائیں کہ ہم نے تو اتنے پیسے شادی پہ لگائے اور اتنی فلاں رسموں پہ
خدارا سوچئیے اور اس نظام کو بدلنے کی کوشش کریں
تحریر: غنی محمود قصوری
مسکراتی رہیں پیاری یہ بیٹیاں| باپ کی محبت بیٹی کے لیے
جہالت کے تالے اسلام نے کھلوائے |ویجائنا کو تالے کس نے لگائے؟