بنگلہ دیش احتجاج کیسے کامیاب ہوا؟ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟
Bangladesh quota reform movement | Bangladesh revolution 2024 | Bangladesh protest
بنگلہ دیش احتجاج کیسے کامیاب ہوا؟ پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو کل سے مسلسل مختلف احباب کی طرف سے سوشل میڈیا پر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے۔ 5 اگست 2024 کا دن بنگلہ دیش کے لیے یوم آزادی بن گیا. لیکن آخر کیسے؟ یہ آزادی ہے تو کس سے اور آزادی حاصل کرنے بعد آگے کیا ہو گا؟ ایسی آزادی پاکستان کا مقدر کیوں نہیں؟ اور پاکستانی عوام کیوں اس طرح ظلم کے خلاف متحد نہیں ہوتی؟
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ بنگلہ دیش دراصل مشرقی پاکستان تھا یعنی مسلمانوں کا ملک. لیکن درمیان میں انتہائی فاصلہ، مکتی باہنی،دشمن کی سازشوں اور آپسی اختلافات کی وجہ سے الگ ملک بن گیا. معاملہ اگر یہیں تک ہی رہتا تو بھی ٹھیک تھا کہ چلو ایک چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی یا رشتہ داروں سے تنگ آ کر الگ گھر بنا لیا اور یہ سب معاشرے میں عام چلتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ شیخ مجیب نے بنگلہ دیش میں سرکاری مذہب کے خانے سے اسلام ہٹا دیا.
نتیجتاً وہ حمایت جو اسے پاکستان یا پاکستانی عوام سے مل سکتی تھی ختم ہو گئی اور "بنگالی غدار بن گئے”. حالانکہ یہ فیصلہ صرف بنگالی حکومت کا فیصلہ تھا عوام کا نہیں. عوام پہلے بھی اور آج بھی اسلام اور پاکستان سے محبت کرتی ہے. بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے علاوہ اور بھی کافی دینی جماعتیں اور ہزاروں مساجد موجود ہیں۔ یہ باتیں پہلے بتانا سمجھانا یا دکھانا کچھ مشکل تھا لیکن اب سوشل میڈیا کے دور میں یہ باتیں نہیں چھپتیں.
شیخ مجیب نے اسلام سے جان چھڑا کر اپنے حساب سے اپنے آپ کو بہت سارے "مسائلِ” سے الگ تھلگ کر لیا. اپنے ہمسائے بھارت کو اعتماد میں لے لیا اور ملکی معیشت پر توجہ دینا شروع کر دی. دنیا کے جھگڑوں سے الگ تھلگ ہو کر پچاس سال میں ان کی معیشت کافی مستحکم ہو گئی لیکن اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی عوام پر کافی ظلم جاری رکھا. جن میں اسلام پسندوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا۔ عوام بھی آخر انسان تھی تنگ آتی گئی لیکن کیا کرتی کہ بنگال کی فوج ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑی رہی.
بنگلہ دیش احتجاج جو کوٹا سسٹم کے خلاف تھا بس ایک چنگاری تھی ورنہ تحریک کافی پرانی تھی
اس سارے عرصے کے دوران عوام جو اسلام سے محبت کرتی تھی اسے یہ بات سمجھ آنے لگی کہ یہ ظلم دین سے دوری کی وجہ سے ہے۔ یعنی اگر ہمارے حکمران اسلام پر عمل کریں تو ظلم نہ ہو. نتیجتاً ایک لاوا بنگالی اسلام پسند عوام کے اندر ہی اندر اس بنگلہ دیشی حکومت کے خلاف پکتا رہا. یہ بنگلہ دیش احتجاج جو طلبہ کا کوٹا سسٹم کے خلاف تھا ایک ایسی چنگاری تھی جس پر بظاہر پانی چھڑکا گیا لیکن وہ پانی نہیں پٹرول تھا جس نے آگ لگا دی.
طلبہ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف اپنا مطالبات منوا لیے لیکن یہ فیصلہ فوج کے مفادات کے خلاف تھا نتیجتاً آگ بجھی نہیں بلکہ بھڑکتی ہی چلی گئی اور وہ حکومت جو عشروں تک فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اسلام پسند عوام پر ظلم کرتی آ رہی تھی چند دنوں میں ہی دھڑام سے گر گئی.
طلبا کے ہاتھوں یہ حکومت کبھی نہ گرتی لیکن جب فوج کے مفادات پر زد پڑی تو انہوں نے اس حکومت سے جان چھڑانے کی ٹھان لی. اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ فوج کے ذریعے عوام کو حکومت کے خلاف کس کس طرح ابھارا گیا لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہر فوجی دراصل کسی نہ کسی طرح خون کے رشتے سے عوام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے. یعنی ایک فوجی چاہے آفیسر ہو چاہے سپاہی… وہ عوام میں کسی کا بھائی کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا ہی ہوتا ہے. اب فوجی کا کام تنخواہ لیکر حکومت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ ایک طرف عوام کا سمندر نکلا تو دوسری طرف حسینہ واجد ملک چھوڑ کر نکل گئی. اسے شاید ادراک ہو گیا تھا کہ فوجی مجھے نہیں بچانے والے. حالانکہ فوج کا کام ہی یہی ہے کہ تنخواہ لے اور حکومت کی حفاظت کرے. لیکن حسینہ واجد فوج کو نہیں کہہ سکی کہ میری حفاظت کرو.
بہرحال جب فوج ہی کسی کے خلاف ہو جائے اور عوام بھی خلاف ہو تو وہ حکومت نہیں بچتی. یا یوں کہہ لیں کہ فوج اور عوام آمنے سامنے ہوں تو ملک نہیں بچتا… اور اگر فوج اور حکومت آمنے سامنے ہوں تو حکومت نہیں بچتی.
پاکستان میں ایسا احتجاج یا ایسا انقلاب کیوں نہیں آتا؟
اس واقعہ کو دیکھنے کے بعد اکثر دوست سوال کر رہے ہیں کہ یہ سب پاکستان میں کیوں نہیں ہوتا تو اس کا واضح جواب ہے کہ پاکستان میں یہی کچھ ہی ہوتا رہا ہے. جتنی بھی حکومتیں گری ہیں وہ فوج نے ہی گرائی ہیں. ہاں یہ الگ بات ہے کہ کبھی اسے حکومت گرانے کی وجہ سے عوام کی حمایت مل جاتی ہے اور کبھی نہیں. لیکن یہاں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں فوج پیچھے تھی عوام آگے… پاکستان میں جب مارشل لاء لگتا ہے عوام گھروں میں ہوتی ہے اور فوج وزیر اعظم ہاوس میں. اسی طرح عدم اعتماد کے وقت فوج پیچھے تھی، عوام گھروں میں تھی لیکن تمام سیاسی پارٹیاں ایک حکومت کے خلاف اکٹھی ہو کر عدالت میں تھیں. اس میں بیشک فوج خاموش تھی لیکن یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ کام فوج کی مرضی یا اس کی اجازت کے بغیر ہو گیا.
دوسرا فرق یہ تھا کہ بنگلہ دیش میں عوام کے پاس ایک بہت بڑی طاقت یہ تھی کہ وہ اسلام پسند تھے اور حکومت غیر اسلامی. پاکستان میں تو جس کی بھی حکومت بنتی ہے وہ بیشک کام جو بھی کرے لیکن عوام کو کبھی اسلام کے خلاف یا اپنے آپ کو اسلام مخالف ثابت کرنے کی جرات نہیں کرتی. کوئی ریاست مدینہ بنا رہا ہے تو کوئی ایمان تقوی جہاد فی سبیل اللہ کر رہا ہے . کوئی اپنے آپ کو اسلام پسند ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو امریکی غلام ثابت کر رہا ہے تو کوئی اپنے مخالف کو یہودی ایجنٹ اور اسرائیل کا دوست بتا رہے .
یعنی پاکستان میں اسلام کا سہارا لیکر سیاسی پارٹیاں سیاست کرتی ہیں ہے… اور بنگلہ دیش میں حکومت نے خود اپنے آپ کو اسلام سے دور کر لیا. جب تک حکومت فوج کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی بچی رہی لیکن جونہی فوج کے مفادات خطرے میں آئے، اس نے ہاتھ پیچھے کیا حکومت دھڑام سے گر گئی.
بنگلہ دیش احتجاج اور عوامی تحریک میں جماعت اسلامی کا کردار
اسلام سے محبت کی وجہ سے ایک غیر اسلامی حکومت گرے اور اس میں دینی جماعت کو کوئی کردار نہ ہو ممکن ہی نہیں. بات دراصل یہ ہے کہ عوام بیشک ظلم سے متنفر ہو کر کھڑی ہوئی لیکن آخر انہیں یہ راستہ دکھایا کس نے کہ ظلم سے بچنے کا طریقہ اس کے آگے سینہ سپر ہونا ہے؟
یہ جماعت اسلامی ہی تھی جس نے لوگوں کو بتایا اور باور کیا کہ اگر اپنے حقوق چاہتے ہو تو اسلامی حکومت لاؤ اسلامی نظام لاؤ… اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کو ہمیشہ نقصان پہنچایا. جماعت اسلامی کے سربراہان کو پھانسیاں دی گئیں ان کے ساتھ ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا. اور آج جماعت اسلامی کی کوششوں کاوشوں سے منزل کا ایک سنگ میل عبور ہوا.
جماعت اسلامی پاکستان میں کیوں کامیاب نہیں ؟
انتہائی دلخراش اور انتہائی تلخ سوال جس کا جواب بھی انتہائی تلخ ہے. بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بس ایک دینی جماعت تھی یا کوئی اور تھی بھی تو وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہی تھی پاکستان میں درجنوں جماعتیں ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں. ان تمام جماعتوں کے علماء، مفتی اور اکابرین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا کام ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یا اسے یوں کہہ لیں کہ اپنے آپ کو حق اور دوسرے کو باطل کہنا ہی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں تو بھلا کوئی اور کام کیوں کریں گے…؟
یہ دینی مذہبی جماعتیں نہ ہی مشترکہ مفادات کو سامنے رکھ کر پارلیمنٹ میں عدم اعتماد لا کر کوئی حکومت گرا سکتی ہیں اور نہ ہی ساری عوام کو متحد کر کے انقلاب لا سکتی ہیں. پہلے یہ سب دینی جماعتیں ایک دوسرے کو کافر اور اپنے آپ کو مسلمان ثابت کر لیں جب وقت اور طاقت بچے گی تو بعد اسلامی حکومت کے لیے بھی متحدہ جدوجہد کر لی جائے گی.۔۔۔ اس حکومت کے خلاف جو فوج کے ہی کندھے پر سوا ہو کر آتی ہے نہ کہ فوج کے مخالف رہ کر.
اگر فوج کے ساتھ بنائے رکھیں تو کامیاب رہیں گے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فوج جب چاہے کسی ملک کی حکومت بنا دے، جب تک چاہے اسے بنائے رکھے اور جب چاہے گرا دے. تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے بعد سب سے بڑا اختیار فوج کو ہے؟ تو اس کا مطلب اگر فوج کے ساتھ بنائے رکھیں تو کامیاب رہیں گے؟
یہی سوال میں نے اپنے ایک فوجی دوست سے کیا کہ دیکھو یار فلاں کام بھی آپ کی مرضی سے ہوا… فلاں بھی آپ کی مرضی سے… سب کچھ آپ کی مرضی سے ہوا لیکن اس کے باوجود محب وطن لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں؟ توہنس کر کہنے لگا اس کا جواب میرے پاس نہیں البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فوجی کو ہر وقت یس سر یس سر کہنا بھی ضروری نہیں اور نو سر کہنا بھی مناسب نہیں. نہ ہی اس کے ساتھ دوستی اچھی اور نہ ہی اس کے ساتھ دشمنی اچھی. بس کام سے کام رکھیں. نہ امید لگائیں اور نہ ذلیل ہوں.
میں نے اس سے پوچھا آپ کی یہ بات میں کسی اور کو بتا سکتا ہوں تو ہنس کر کہنے لگا میرا نام نہ بتانا باقی کوئی مسئلہ نہیں.
پاکستان ایک نعت ہے اس کی قدر کریں
دوسرے ملکوں میں آنے والے انقلاب دیکھ کر اپنے ملک کے مسائل کا حل ایسا انقلاب کبھی مت سمجھیں. دوسرے ملکوں میں حکومت بدلتی ہے تو عوام کے لئے آسانی ہوتی ہے پاکستان میں حکومت گرتی ہے اور سارا ملبہ مہنگائی کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے. پاکستان میں مہگائی بدامنی چوری کرپش رشوت جیسے ہزاروں مسائل موجود ہیں لیکن پھر بھی یہ دوسرے ممالک سے کافی بہتر ہے اور سب سے بڑی بات کہ یہ اپنا گھر ہے۔
اس لئے بہتر ہے کسی اور کی حکومت بنانے بچانے کے لیے جدوجہد کرنے کی بجائے اپنا گھر اور اپنی فیملی کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کی جدوجہد کریں. خود کو معاشی طور پر مستحکم رکھیں اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں. اسلام کے مطابق زندگی گزاریں اور پاکستان میں اسلام کے نام سے سیاست کرنے والوں کی حکومت کو ثواب سمجھ کر گرانے اور اسلامی انقلاب لانے کا خیال چھوڑ دیں. اس وجہ سے نہیں کہ یہ جائز نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ ایسی حکومتیں پہلے کئی بنی ہیں کئی گری ہیں اور آئندہ بھی گرتی رہیں گی۔ لیکن نہ ہی حکومتوں کے گرنے سے اسلام کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی عوام کا. اور نہ ہی پاکستان کا. اس لئے میرے خیال میں ایسا کام جس میں فائدہ ہی نہیں اس کے کرنے کی ضرورت بھی نہیں
فوجی کی ٹانگ ناپنے کی بجائے انڈینز اور بنگلہ دیشیوں سے اپنی عقل اور ہنر ناپ کر دیکھیے
Bangladesh quota reform movement | Bangladesh revolution 2024 | Bangladesh protest