کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
مجھے تو بے چین کر گیا وہ
ابھی تو چلتا تھا ساتھ میرے
اور ایک پل میں بچھڑ گیا وہ
یہ آنکھ پر نم اگر تھی اپنی
خوشی خوشی تھی جدھر گیا وہ
ہم آنسوؤں میں ہی تیرتے تھے
یہاں جو ڈوبا کدھر گیا وہ
میں اس کو ڈھونڈوں تو کیسے ڈھونڈھوں
ہوا کے رخ پہ بکھر گیا وہ
جفائیں کیسے بگاڑتی رخ
جو ہجر میں بھی نکھر گیا وہ
وہاں پے کیسے سنبھالتا دل
تجھے جو دیکھا ببھر گیا وہ
وہ چاند دن میں یوں کیوں نکلتا
شفق بگڑتے ابھر گیا وہ
حبیب تیری یہ صحبتیں ہیں
کہ جو بھی آیا سدھر گیا وہ