اک دن کا ہم سفر بھی وہ کتنا عجیب تھا
میرا اور اس کا ربط بھی کتنا غریب تھا
اک بار مل کے مجھ سے وہ یہ کہہ کے چل دیا
شاید کہ یہ جدائی ہی اپنا نصیب تھا
دو انتہائیں چلتیں رہیں ساتھ ساتھ اور
کہتے رہے یہ لوگ وہ میرے قریب تھا
سوچا تو…
ہر طرف بے بسی کا عالم ہے
جس کو دیکھو وہ شخص بے دم ہے
کوئی انسانیت نہیں باقی
مال کے آگے سب کا سر خم ہے
مشرقی والدین کیا جانیں
مشرقی نسلِ نو کو کیا غم ہے
کیوں محبت کے نام پر ہر شخص
دل گرفتہ…
سارے انساں جا رہے ہیں عارضی گھر چھوڑ کر
فانی دنیا کا سبھی ہی مال اور زر چھوڑ کر
اس جہان فانی سے تم دل لگانا نہ کبھی
ایک دن تو نے ہے جانا سارے منظر چھوڑ کر
زندگی اپنی گزارو رب کا قراں تھام کر
جھوٹے موٹے…
کبھی جو غم کے اندھیروں نے گھیر مارا مجھے
تمہاری یاد نے بڑھ کر دیا سہارا مجھے
میں ایک اشک ہتھیلی پہ دھر کے چلتا ہوں
ہزار سمت دکھاتا ہے یہ ستارا مجھے
تمہاری آنکھیں بھی کتنا بڑا سمندر ہیں
ملا نہ ان کا کبھی دوسرا کنارا مجھے
لٹا ہی…
کسی نے خار ، کسی نے دیے گلاب مجھے
سو جیسے لوگ تھے ویسے ملے جواب مجھے
وہ روشنی جو مری ذات سے نہ پُھوٹی تھی
ہَوا کو دینا پڑا اُس کا بھی حساب مجھے
مَیں اب چراغِ شبستاں بُجھانے والا ہوں
بلا رہا ہے سرِ دشت ماہتاب مجھے
مری سرشت، مری…