سیٹھ صاحب شہرت، سخاوت ، خود پسندی اور فرعونیت کا حسین امتزاج
Attitude of a rich but selfish person
سیٹھ صاحب اپنے علاقے کی معروف اور جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان کے ہاں کئی نوکر چاکر ہیں۔ جن کے اکثریت فیکٹری میں کام کرتی ہے اور ان میں سے کچھ ان کے بنگلے پر ہوتے ہیں۔ یہ افراد وہ ہیں جو چند پیسوں کے عوض ان کے پاس نوکری پر مامور ہیں۔ سیٹھ صاحب ظاہری وضع قطع سے اچھے بھلے مناسب انسان معلوم ہوتے ہیں۔ چہرے سے شرافت و متانت نہ صرف جھلکتی کھٹکتی بلکہ ٹپکتی محسوس ہوتی ہے۔ انداز گفتگو سے بھی سلجھاؤ کی بوندیں گرتی نظر آتی ہیں۔ مگر سیٹھ صاحب اپنے نوکروں کے حوالے سے اپنی خوبصورت زبان کو استشنائی حیثیت دیتے ہیں ۔ اور یہ بھی ان کا اپنی رعایا پر رحم ہے کہ نوکر کی ہلکی سی غلطی پر سیٹھ صاحب ہاتھ کی بجائے زبان سے ان کی چمڑی ادھیڑتے ہیں۔ اس تمام عرصے کے دوران ان کی ساری شرافت و متانت اور شگفتگی کچھ دیر کے لئے رخصت ہو جاتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ زبان کے کچھ دیر جارحانہ استعمال کے بعد جب ان کے دیے گئے حکم کی تعمیل ہو جاتی ہے شرافت اور متانت بھی دوبارہ لوٹ اتی ہے۔
ابھی کچھ دن قبل کی بات ہے کہ ان کے ڈرائیور کا بچہ شدید بیمار ہو گیا۔ گھر والوں کی بھی طبیعت صحیح نہیں تھی۔ اس لیے ڈرائیور صاحب کو کام پر پہنچنے میں تھوڑی سی تاخیر ہو گئی۔ جب وہ کام پر پہنچے تو سیٹھ صاحب کباب کی طرح فرائی ہو کر لال سرخ چہرہ لیے منتظر تھے۔ ڈرائیور صاحب جیسے ہی پہنچے سیٹھ صاحب نے بجائے لیٹ آنے کی وجہ معلوم کرنے کے آؤ دیکھا نہ تاؤ ان پر چڑھائی شروع کر دی اور ان کو خوب دل بھر کے کھری کھوٹی گوش گزار کروائیں۔ قریب تھا کہ ان پہ ہاتھ اٹھا دیتے مگر یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ صرف زبان سے ہی ان کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ ہاتھ اٹھانے کی نوبت نہ آئی۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہر کچھ دن بعد اس طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ پچھلے ہی دنوں کی تو بات ہے۔ سیٹھ صاحب کا سامان لینے کے لیے جو نوکر صاحب کام پر مامور ہیں ان سے 10، 20 روپے کا حساب اوپر نیچے ہو گیا۔ اب مہنگائی کے اس دور میں اگر ایسا کچھ ہو گیا تو سیٹھ صاحب نے اپنا طریقہ نہیں بدلا۔ نہ صرف انہیں ساری نسلیں یاد کروائیں بلکہ سزا کے طور پر ان کی تنخواہ میں سے اس سے تین گنا کاٹ لیا۔
فلاحی تنظیمموں کے پاس جا کر سیٹھ صاحب ان کے ساتھ خوب تعاون کرتے ہیں اور ہر زاویے سے تصویریں بنواتے ہیں اور اگلے دن اخبار یا سوشل میڈیا پر جب انہین اپنا دیدار نصیتب ہوتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی سیٹھ صاحب کے چرچے بہت زیادہ ہیں۔ اور خوب بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ معروف تنظیمیں جو کہ اپنے ساتھ تعاون کرنے والوں کی خوب تشہیر کرتی ہیں، سیٹھ صاحب ان کے پاس جا کر خوب تعاون کرتے ہیں اور ہر زاویے سے تصویریں بنواتے ہیں اور اگلے دن اخبار یا سوشل میڈیا پر جب انہین اپنا دیدار نصیتب ہوتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
ابھی عید قربان قریب ہے ہر انسان کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ قربانی پر کچھ نہ کچھ قربان کرے اور سنت ابراہیمی کو زندہ کرے۔ اسی غرض سے سیٹھ صاحب کے کچھ نوکر اکٹھے ہوئے اور سوچا کہ سیٹھ صاحب چونکہ فلاحی کاموں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں اور اس وقت مہنگائی عروج پر ہے، تنخواہیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو چند پیسے ملتے ہیں وہ کرائے، کھانے، پینے، تعلیم اور بیماری میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ تو کیوں نہ سیٹھ صاحب سے گزارش کی جائے کہ اس بار وہ جہاں بہت سارے اپنے ہٹے کٹے جانور لے کر کے آتے ہیں اور انہیں مختلف فلاحی اداروں میں بھی دیتے ہیں ۔۔۔ کچھ جانور اپنے نوکروں کے لیے بھی لے کے آ جائیں۔ جو ان کے لیے وقف ہوں اور نوکروں کی طرف سے حصہ ڈل جائے اور قربانی ہو جائے۔
یہ سوچ کر سب نے آپس میں مشورہ کیا اور اس کے بعد بیل کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی باری آئی، سمجھ نہ آئے کہ کس کو آگے کیا جائے۔ کیونکہ سب ہی سیٹھ صاحب کی زبان کی شرافت اور رفتار سے خوب واقف تھے۔ بہرحال سیٹھ صاحب کی زبان کی شرافت کی وجہ سے کوئی یہ بات کہنے کے لیے تیار نہ ہو پایا اور سب نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ اور الحمداللہ اس طرح سیٹھ صاحب کی تمام رعایا ایک بہت بڑے فساد اور بدمزگی سے بچ گئی۔
چونکہ عید قرباں سر پر آن پہنچی ۔ قربانی کے جانور بھی خریدنے ہیں لہذا سیٹھ صاحب نے اپنے ڈرائیور کو بلایا اور بتایا کہ کل ہم مویشی منڈی جائیں گے اور وہاں سے عید قربان کے لیے جانور خرید لائیں گے۔ لہٰذا وقت کی پابندی کرتے ہوئے تیار رہنا۔ ڈرائیور صاحب چونکہ سیٹھ صاحب کی طبیعت اور مزاج سے خوب واقف ہیں، لہذا انہوں نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی ۔ آخر وہ وقت آن ہی پہنچا کہ سیٹھ صاحب اپنے بچوں سمیت گاڑیوں کا ایک لشکر لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ گویا کہ بکر منڈی فتح کرنی ہے۔
سیٹھ صاحب عید والے دن خوب قربانیاں کریں گے اس کے بعد دوستوں کے ساتھ لطف اندوز ہوں گے اور تکہ کباب پارٹیاں اور خوب محفلیں سجیں گی۔ باقی رہ گئے نوکر چاکر تو ان بیچاروں کو تو تنخواہ ملتی ہے ناں
وہاں پہنچ کر سیٹھ صاحب اور ان کے بچے گھوم پھر رہے ہیں اور موٹے تازے ہٹے کٹے جانوروں کو تلاش کر رہے ہیں کیونکہ سیٹھ صاحب کا قربانی کا ذوق بھی بڑا شاندار ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے ایسا جانور ہو کہ جسے دور سے کوئی بھی دیکھے وہ عش عش کر اٹھے اور داد دیے بغیر آگے نہ جا سکے۔ یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہوں گے کہ داد کی وصولی ہی تو سیٹھ صاحب کے دل کو زندہ رکھتی ہے اور ان کا خرچ کیا ہوا ان کی تحسین کا باعث بنتا ہے۔ سیٹھ صاحب اور ان کے بچوں نے جانور منتخب کیے جن میں کچھ بیل، کچھ بکرے بھی شامل ہیں اور اب انہیں الگ سے ایک ٹرک پر لوڈ کر دیا گیا۔ اب واپسی کی تیاری ہے، جانوروں کی خریداری کے دوران بھی سیٹھ صاحب نے خوب بھاؤ طے کیا اور کوشش کی کہ کم سے کم لاگت میں اچھے سے اچھے جانور مل جائیں۔ تا کہ جو بیچنے والا ہے اسے اس بات کی دل میں کھٹک نہ ہو کہ میں نے جو قربانی کا جانور بیچا ہے وہ زیادہ پیسوں میں بیچ کر اپنی آخرت کا اجر کم کروا لیا ہے۔
سیٹھ صاحب نے اپنے ایک نوکر صاحب کو ٹرک ڈرائیور کے ساتھ بٹھا دیا ہے تاکہ جانوروں کی بھی حفاظت رہے اور وہ سیٹھ صاحب کے ساتھ بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق کچھ جانوروں کو فلاحی اداروں میں وقف قربانی کے لئے راستے میں اداروں میں اتاردے۔ سیٹ صاحب اپنے بچوں سمیت پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ جیسے ہی وہاں پر گاڑی پہنچی سیٹھ صاحب نے ایک جانور وہاں پر اتروایا اور اس کے ساتھ خوب تصویریں بنیں۔ پھر وہاں سے چل دیے۔۔۔۔ ایک دوسرے ادارے کی طرف۔ وہاں پر بھی یہی ماحول رہا اور اس کے بعد مزید جگہوں سے فراغت کے بعد اب گھر کے ہی جانور بچ چکے ہیں۔ اب سیٹھ صاحب گھر کی طرف ہو لیے۔
بہرحال عید قربان قریب ہے اور سیٹھ صاحب عید والے دن خوب قربانیاں کریں گے اس کے بعد دوستوں کے ساتھ لطف اندوز ہوں گے اور تکہ کباب پارٹیاں اور خوب محفلیں سجیں گی۔ باقی رہ گئے نوکر چاکر تو ان بیچاروں کو تو تنخواہ ملتی ہے ناں ،جو ان کی تنخواہ ہے وہ اسی میں خوش رہیں اور سیٹھ صاحب اپنی ان مصروفیات اور کھانے پینے کی پارٹیوں میں مگن رہیں گے۔ غریبوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
تحریر: حبیب اللہ خان پاندہ
قربانی کا فلسفہ| حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت قرب الہی کا ذریعہ مگر کیسے؟