قدم جما کر دکھاؤں گا میں، یہ سر اٹھا کر دکھاؤں گا میں | خود انحصاری پر لکھی گئی پر عزم شاعری
اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنی دنیا و آخرت کمانے کی جسجتجو کرنے والے ایک سیلف میڈ نوجوان کے جذبات کا اظہار شاعری کی شکل میں
قدم جما کر دکھاؤں گا میں، یہ سر اٹھا کر دکھاؤں گا میں
سسکتی انسانیت کے درد اور غم کو اک دن مٹاؤں گا میں
نہ بھیک مانگوں گا میں کسی سے، نہ دن گزاروں گا بے بسی سے
خود اپنے ہاتھوں کما کے کھاؤں گا اور سب کو کھلاؤں گا میں
نہیں رکھوں گا بیزار خود کو، نہیں کروں گا بیکار خود کو
کسی کی خاطر آسانی بن کر، کسی کو رستہ دکھاؤں گا
جنہوں نے ظلمت میں ہاتھ تھاما جنہوں نے مجھ سے اندھیرے بانٹے
آسانیوں کی حسیں صبح میں انہیں کبھی نہ بھلاؤں گا میں
خدا کے بندوں کی کر کے امداد دل میں تسکین پاؤں گا میں
دعاؤں کی جھولیاں بھروں گا، یہ خیر و برکت کماؤں گا
زمیں بھلاؤں نہ گھر بھلاؤں، کبھی نہ دیوار و در بھلاؤں
ہر ایک مشکل میں اس وطن کے ہر ایک پل کام آؤں گا
کوئی نہ دیکھے کبھی میری بے بسی کا اک لمحہ زندگی میں
خدا کے ہی سامنے ہر اک پل یہ اشک اپنے بہاؤں گا میں
کروں گا خود ہی شکار اپنا، رکھوں گا دل بیقرار اپنا
شاہین کی طرح خود کو صفدر بلند تر کرتا جاؤں گا میں
قدم جما کر دکھاؤں گا میں، یہ سر اٹھا کر دکھاؤں گا میں
سسکتی انسانیت کے درد اور غم کو اک دن مٹاؤں گا میں
شاعری : سلیم اللہ صفدر
اے مولا درد سارے چھین کر خوشیاں عطا کر دے
میرے اجداد نے مانگا چمن میں آشیاں لوگو | وطن سے محبت پر اشعار