محکمہ جنگلی تحفظات کو تحفظ دیا جائے | محکمہ وائلڈ لائف پنجاب رپورٹ
Punjab wildlife department
محکمہ جنگلی تحفظات کی طرح پاکستان میں ہر قسم کا محکمہ موجود ہے جو مسائل کو اپنے وسائل کے مطابق حل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تاہم پاکستانی عوام جانتی ہے کہ وسائل ہونے کے باوجود یہ محکمے عوام کیلئے مسائل ہی پیدا کرتے ہیں اور قانونی لوگوں کو غیر قانونی اور غیر قانونی لوگوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں
ان محکموں میں ایک محکمہ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ، بھی شامل ہے
سب سے پہلے تو میں اس محکمے کا تعارف کرواتا ہوں
چونکہ راقم خود ایک شکاری ہے اس لئے اس محکمے سے میرا خصوصی واسطہ بھی ہے.
محکمہ جنگلی تحفظات یا پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ انگریز دور حکومت میں 1934 کو معرض وجود میں آیا
1934 سے 1973 تک یہ محکمہ مختلف محکموں کے زیر سایہ کام کرتا رہا تاہم 1973 میں اسے پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کا نام دیا گیا اور تب اس محکمے نے جنگلی حیات،محکمہ جنگلات اور محکمہ ماہی پروری کے طور پہ کام شروع کیا
یعنی جنگلات کا تحفظ،جنگلی جانوروں، پرندوں کا تحفظ اور مچھلیوں کا تحفظ و افزائش اس محکمے کی ذمہ داری ہے اور چڑیا گھر و پارکس بھی ان کے زیر انتظام ہیں
ہمارے ہاں 80 فیصد لوگ بغیر شکاری لائسنس کے کھلے عام ہر قسم کا شکار کرتے ہیں جو کہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں
محکمہ جنگلی تحفظات کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوتا ہے جس کے زیر سایہ پنجاب بھر میں ایک ڈائریکٹر اور 10 ڈپٹی ڈائریکٹرز کام کرتے ہیں
اس کے ایکٹ میں 1974 کے بعد 2007 اور پھر 2010 میں ترمیم کی گئی
ملک بھر کی طرح پورے پنجاب میں اس وقت شکار کا سیزن شروع ہے
شکاری حضرات کیلئے لازم ہے کہ وہ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے جاری کردہ لائسنس کے تحت ہی شکار کر سکتے ہیں
مگر ہمارے ہاں 80 فیصد لوگ بغیر شکاری لائسنس کے کھلے عام ہر قسم کا شکار کرتے ہیں جو کہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں
اس محکمے کو جو وسائل ملنے چائیے وہ وسائل بھی اس محکمے کے پاس موجود نہیں
ہر تحصیل میں ایک گیم وارڈن اور انسپیکٹر پہ مبنی ٹیم ہوتی ہے جس کا کام غیر قانونی شکار کو روکنا ہے تاہم اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اتنے کم لوگوں کا بہت زیادہ رقبے میں کام کرنا ایک لطیفے سے کم نہیں پانچ سات بندے ایک آدھ پرانی پھٹیچر گاڑی اور سینکڑوں کلومیٹر کا رقبہ ایک لطیفہ نہیں تو اور کیا ہے
اسی موقع سے ناجائز شکاری فائدہ اٹھاتے ہیں اور جنگلی حیات کو ختم کر رہے ہیں
اس محکمے کی طرف سے لائسنس جاری کرتے وقت حامل لائسنس کو کچھ نہیں بتایا جاتا کہ فلاں پرندہ و جانور آپ شکار کر سکتے ہیں اور فلاں نہیں حتی کہ جاری کردہ لائسنس پہ بھی کچھ معلومات رقم نہیں
اس محکمے کی طرف سے لائسنس جاری کرتے وقت حامل لائسنس کو کچھ نہیں بتایا جاتا کہ فلاں پرندہ و جانور آپ شکار کر سکتے ہیں اور فلاں نہیں حتی کہ جاری کردہ لائسنس پہ بھی کچھ معلومات رقم نہیں اور جو کہ کچھ لکھا وہ بھی خیر سے انگریزی میں رقم ہے جس کے باعث قانون کا احترام کرنے والا حامل شوٹنگ وائلڈ لائف لائسنس ہولڈر نہیں جانتا کہ کونسا پرندہ نایاب ہو رہا ہے اور کونسا عام
کونسے دن شکار کی ممانعت اور کونسے دن اجازت؟
کب بریڈنگ سیزن شروع ہے اور کب ختم؟
کونسا پرندہ ہمارے ملک کا ہے اور کونسا پرندہ مہمان ہے؟
اور ایک لائسنس پہ کتنی بندوقوں کیساتھ کتنے افراد کتنے پرندے ایک دن میں شکار کر سکتے ہیں؟
کیونکہ انٹرنیٹ پہ ایک بندے کے ہاتھ میں درجنوں شکار کئے پرندوں کی تصاویر نظر آتی ہیں حتی کہ گاڑیوں کے بونٹ نایاب پرندوں کے شکار سے بھرے پڑے ہوتے ہیں
یہ سب انٹرنیٹ پہ سرچ کرنے پہ بھی کچھ خاص معلومات نہیں ملتیں
اس محکمے کو بطور کالم نگار اور ایک رجسٹرڈ شکاری میری سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ لائسنس جاری کرتے وقت ایک لٹریچر فراہم کریں جس پہ سب قواعد و ضوابط لکھے ہوئے ہو تاکہ شکاری حضرات کو مکمل علم ہو نیز یہ کوشش ہونی چائیے کہ اس کمیونیکیشن کے دور میں رجسٹرڈ شکاریوں کو واٹس ایپ گروپ میں ایڈ کرکے معلومات سے آگاہ کیا جاتا رہے اور ان کو بتایا جائے کہ آپ کس پرندے ،جانور کی شکار کی ہوئی تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل کر سکتے ہیں اور کس کی نہیں کیونکہ یہ بات بہت زیادہ دیکھنے میں آئی ہے کہ سوشل میڈیا پہ وائرل تصویر کو بنیاد بنا کر جرمانہ کیا جاتا ہے حالانکہ جو شکاری لائسنس حاصل کرتا ہے بھلا اس کیا ضروت غیر قانونی کام کی ؟
اگر وہ قانون کا احترام نا کرتا ہوتا تو پھر وہ بھی ان 80 فیصد غیر قانونی شکاریوں کا حصہ ہوتا اور اپنے سالانہ پیسے لائسنس کی فیس کی مد میں ادا کرنے سے بچاتا
سو محکمے کی یہ غفلت شکار حاصل کئے شکاریوں کو غیر قانونی طریقے پہ شکار کرنے پہ مجبور کر رہی ہے جبکہ دوسری سمت وڈیروں جاگیر داروں اور اشرافیہ کو بغیر اسلحہ و وائلڈ لائف شوٹنگ لائسنس کے پورے پروٹوکول کیساتھ ممنوعہ شکار والے علاقوں میں شکار کروایا جاتا ہے جس سے عام غریب اور بغیر شفارش شکاریوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور یوں یہ محکمہ قانونی لوگوں کو غیر قانونی اور غیر قانونی لوگوں کو قانونی بنا رہا ہے
نیز ایک غفلت یہ بھی ہے کہ نایاب ہوتے پرندے فاختہ کے شکار کی اجازت ہے اور ائیر گن کے شکار کو مکمل بین کیا ہوا ہے جس کے باعث عام غریب انسان شکار جیسے اہم اور تندرستی برقرار رکھنے والی ورزش سے محروم ہے
دوسری جانب سیمی آٹومیٹک رپیٹر سے لوگ بیک وقت نصف درجن کارتوس چلا کر درجنوں پرندے مار گراتے ہیں اور پرندوں کی نسل کشی کر رہے ہیں
آج سے دو سال قبل اس محکمے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب محمد نعیم بھٹی کی سربراہی میں محکمہ جنگلی تحفظات کافی فعال اور بہتر تھا تاہم اب کچھ خاص بہتری نہیں
واضع رہے کہ پاکستانی عدالت نے 2021 میں ڈمی پرندوں (decoys) کیساتھ شکار کرنے اور ائیر گن کیساتھ شکار پہ پابندی لگا رکھی ہے تاہم قد آور لوگ کھلے عام یہ سب کر رہے ہیں
میری گورنمنٹ سے گزارش ہے کہ سپرنگر (Springer) ائیر گن کیساتھ شکار کی پابندی ہٹائی جائے جبکہ پی سی پی ائیر گن( Pre-Charged Pneumatics ) پہ پابندی برقرار رکھی جائے
ریاست پاکستان کے ہر شہری کو شکار کا حق حاصل ہے سو مخصوص لوگوں کے فائدے کی خاطر غریبوں کو اس شوق اور ورزش سے محروم نا کیا جائے
اگر بات کی جائے محکمے کی کارکردگی کی تو آج سے دو سال قبل اس محکمے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب محمد نعیم بھٹی کی سربراہی میں محکمہ کافی فعال اور بہتر تھا تاہم اب کچھ خاص بہتری نہیں لہذہ محکمے کو فعال کیا جائے اور افسران کو نعیم بھٹی کی طرح ذیلی افسران و عملے کی چیکنگ اور مانیٹرنگ کا پابند بنایا جائے تاکہ پرندوں کی نسل کشی بھی نا ہو اور محکمہ جنگلی تحفظات کے لوگ لگن سے کام کریں تاکہ شکاری حضرات ساری معلومات حاصل کرکے شکار کر سکیں۔
تحریر: غنی محمود قصوری