بابا !!! اب اس ملک میں کچھ نہیں بچا مہنگائی ہے تباہی ہے غربت ہے پسماندگی ہے۔
دل چاہتا ہے میں یہاں سے کوچ کر جاؤں۔ میں نے آزردگی سے کہتے ہوے معمول کے مطابق بابے بشیر کے سامنے پاکستانی معیشت اور اپنا دکھڑا دہرایا
ماسٹر بشیر احمد عرف بابا جو ریٹائرمنٹ کے بعد سے اپنی بزرگی اور حلیم طبع کے باعث ہم جیسے لوگوں کا دکھڑا باکس بن چکا تھا۔
میرے غربت اور پسماندگی کے دکھ بھرے بیان پر اس نے انہماک سے اخبار پڑھتے ہوے اپنی سفید بھنویں سکیڑ کر موٹے دبیز عدسوں کی گول عینک کے پیچھے سے ترحم آمیز نظروں سے مجھے گھورا اور بولے۔
پُتر تم پسماندہ نہیں احساس کمتری کا شکار ہو تم خودساختہ مایوسی کا شکار ہو۔
تم نے وہ پاکستان نہیں دیکھا جو ہمیں ملا تھا۔
جس میں صرف 14 ہزار کلومیٹر سڑکیں 13 ہزار گاڑیاں 12 ہزار ٹیلی فون لائنز ایک ہزار ہیکٹر قابل کاشت رقبہ اور 25 میگا واٹ بجلی تھی۔
ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں تھی، مٹی کے تیل سے لالٹین جلاتے تھے، اور کہیں تو وہ بھی میسر نہیں تھی، کپڑے عید پر ہی بنتے تھے، دو تین ہزار کی آبادی میں بھی طبیب میسر نہیں تھا۔
ویسے تو مشہور ہے نہ کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے لیکن یہاں یہ حقیقت ہم پر صادر آتی تھی اگر کسی کو تعلیم کی حاجت تھی تو روزانہ دس میل سفر کرکے اسے اپنے” چین” تک پہنچنا پڑتا تھا اور پھر اس "چین” سے واپس گھر جانے کے لیے دوبارہ دس کلو میٹر چلنا پڑتا تھا۔
کیونکہ اگر پرائمری سکول ایک گاوں میں تھا تو ہائی سکول 3 گاؤں دور تھا۔
کھٹی لسی، اچار اور روٹی بریک فاسٹ ہوتا تھا۔ مرغی پکنے والا حادثہ کسی خاص مہمان کی آمد پر ہی رونما ہوتا۔
لیکن کبھی کسی کو غربت، پسماندگی کا احساس تک نہ ہوا۔ ہر حال میں الحمد للہ تھا۔
مائیں قمیض اتنی لمبی سی دیتی تھی کہ 4 سال تک تو وہ گِٹے گوڈے ڈانپے رکھتی۔ عمر کے ساتویں سن تک شلوار کی حاجت بھی پوری کرتی۔ لیکن پورے بچپن کبھی میں نے کسی سے غریب، نادار، لاچار، بےچارہ شُودا نہ سنا۔
جب اس ملک میں کچھ نہیں تھا ہم لوگ پیاروں کے گلے کٹوا کر اپنی مال و دولت گھربار چھوڑ کر یہاں پہنچے۔ ہم میں سے کسی نے ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا اس کمزور بدحال ملک میں کیسے زندگی گزاریں گے۔
لیکن آج اگر دیکھیں تو اس ملک میں پختہ سڑکوں، ہائی ویز، موٹر ویز اور ایکسپریس ویز پر مشتمل قومی روڈ نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی تقریباﹰ دو لاکھ چونسٹھ ہزار کلو میٹر ہے۔ پاکستان اپنے روڈ نیٹ ورک کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں اکیسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 19 کروڑ ہے۔
سڑکوں پر ایک کروڑ سے زائد گاڑیاں رواں دواں ہیں۔
پاکستان موٹر سائیکلوں کی پانچویں بڑی مارکیٹ ہے۔
مہنگی ترین فوڈ چینز پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ میکڈونلڈ کے ایف سی کے ڈائننگ ہال فل اور ڈرائیو تھرو پر گاڑیوں کی لمبی لائینیں ہیں۔
مہنگے ترین فیبرک برینڈز پر تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ہر نکڑ پر سکولز اور ہسپتال ہیں۔ ہر طرف سپیشلسٹ ڈاکٹرز ہیں۔
سوئی گیس ہے ہر گھر سہولیات سے بھرپور ہے۔
تو تمھیں غربت اور پسماندگی نظر آنے لگی۔ تمھیں یہ ملک برا لگنے لگا۔ تمہیں پاکستانی معیشت پر افسوس ہو رہا ہے۔
ارے جب اس ملک میں کچھ نہیں تھا ہم لوگ پیاروں کے گلے کٹوا کر اپنی مال و دولت گھربار چھوڑ کر یہاں پہنچے۔ ہم میں سے کسی نے ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا اس کمزور بدحال ملک میں کیسے زندگی گزاریں گے۔
میں آج زندگی کے 85 سال گزار چکا ہوں ۔ پسماندگی اور جدیدیت دونوں ادوار دیکھ لیے۔ پاکستانی معیشت کا عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔
آج اس ملک میں سب کچھ ہے۔ لیکن تم مایوس ہو۔ آج اس ملک میں جدید زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں تو یہاں کا ہر باسی غریب ہے پسماندہ ہے محروم ہے۔
ٹھنڈے دماغ سے سوچو گڑبڑ کہاں ہے؟ اب ہی تم لوگوں کو یہ احساس محرومی کیوں تنگ کر رہا ہے۔ کہیں تم پراپگنڈے کا شکار تو نہیں؟
کہیں ہمارے دشمن میکاولے کے فلسفے پر عمل پیرا تو نہیں کہ "اگر تم کسی قوم کو جنگ کے بغیر فتح کرنا چاہتے ہو تو اسے مایوسی اور احساس کمتری کا شکار بنا دو۔ وہ ہمیشہ آگے بڑھنے سے گھبرائے گی۔۔۔ غلام رہے گی”
غربت تو ہر ملک میں ہے۔ بھارت میں تقریباً 80 کروڑ افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں تقریباً 10 کروڑ افراد سے زیادہ انتہائی غربت کی نچلی سطح پر ہیں.
کیا انھوں نے غربت سے نکلنے کی کوشش ترک کر دی؟؟
تو تم کیوں گھبرا گئے؟؟
امید زندگی ہے۔ مایوسی اور ناامیدی موت کی علامت ہے۔
تم لوگ بیروزگاری پر چیخنے کی بجائے ہنر مند کیوں نہیں بنتے؟
تم لوگ مہنگائی کے سامنے سرینڈر کرنے کی بجائے اناج، پھل کیوں نہیں اگاتے۔ لائیوسٹاک پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟
تم لوگ امیر تر بننے کے لیے 25 لاکھ لگا کر سمندر میں ڈوبنے کی بجائے اس سے اسی ملک میں کوئی کاروبار کیوں نہیں کرتے؟
تم لوگ قرض اٹھا کر اپنی زندگی اجیرن کرنے کی بجائے اپنی چادر کے مطابق پاؤں کیوں نہیں پھیلاتے؟
تم لوگ ان مسائل سے نکلنے کے لیے ان وسائل کو استعمال کیوں نہیں کرتے جو اس ملک میں بھرے پڑے ہیں؟ کیا تمھیں رب تعالیٰ کے یہ احسان نظر نہیں آتے جو اس نے قدرتی وسائل کی شکل میں تمھارے ملک پر اتارے؟
یاد رکھنا امید زندگی ہے۔ مایوسی اور ناامیدی موت کی علامت ہے۔
اگر ڈوبتا شخص ناامید ہو کر تیرنے کی کوشش ترک کر دے تو اسے ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ لیکن اگر اس کی امید زندہ رہے تو اس کی کوشش اسے بچا لے گی۔
ماسٹر بشیر اپنی بات ختم کرکے پھر سے اخبار میں گم ہو چکا تھا۔ اور میں ڈور کا وہ سرا تلاش کر رہی تھی جس نے ہمیں مایوسی کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے …
میرے کانوں میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقریر گونج رہی تھی
"اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں”
مایوسی کفر ہے۔ ان شاء اللہ پاکستانی معیشت ایک سال میں بہتری کے رستے پہ گامزن ہوجاٸے گی۔
تحریر :حجاب رندھاوا
فوجی کی ٹانگ ناپنے کی بجائے انڈینز سے اپنی عقل اور ہنر ناپ کر دیکھئے
Wow, superb blog structure! How lengthy have you been running a
blog for? you made running a blog glance easy. The
entire look of your website is excellent, let alone the content!
You can see similar: sklep and here sklep
Hi, i think that i saw you visited my site so i
came to “return the favor”.I am trying to find things
to improve my website!I suppose its ok to use some
of your ideas!! I saw similar here: sklep internetowy and also here:
najlepszy sklep
I am regular reader, how are you everybody? This article posted at this web site is truly good.
I saw similar here: Dobry sklep