مرے دیس کو اب یہ کیا ہو گیا ہے
قیامت سے پہلے قیامت بپا ہے
چلو ڈھونڈ لائیں مِرے یار پھر سے
خزانہءِ الفت کہیں کھو گیا ہے
کھلے بابِ عرفاں اسی پر ہمیشہ
مصائب کا جس نے کیا سامنا ہے
اسی لامکاں کے ہیں جلوے جہاں میں
کہیں پر جو مخفی کہیں رونما ہے
قسم جس کی کھائی خدا نے یقینًا
ہر اک زاویے سے وہ صورت جدا ہے
لہو سے تھا لَت پَت کٹہرے میں مجرم
کہا منصفوں نے یہ رنگِ حنا ہے
بنا ہوں میں باغی جو اہلِ ستم کا
اسی بات پر یہ زمانہ خفا ہے
کبھی دیکھ دشتِ انا سے نکل کر
گلستانِ الفت بڑا خوش نما ہے
مرے آنسوؤں کی نہیں کوئ قیمت
تو اتنا بتا دے مرا مول.کیا ہے؟
جسے تم سمجھتے ہو اپنا مسیحا
حقیقت میں وہ ایک بہروپیا ہے
بسیرا ہے ان کا دلِ پر ضیاء میں
انہیں اب تُو بابر کہاں ڈھونڈتا ہے
پلا برق سب کو تُو جامِ محبت
جو انسانیت کا بھلا چاہتا ہے
مرے دیس کو اب یہ کیا ہو گیا ہے
قیامت سے پہلے قیامت بپا ہے
شاعری : بابر علی برق