ماتھے کی گرہ کھول دے سجدوں کی طلب دے
آنکھوں میں ندامت کی نمی آج دے اب دے
دنیا کی محبت مجھے مصروف نہ کردے
اعمال کی توفیق کی نعمت مجھے رب دے
قرآن کے پیغام کو سینے میں اتاروں
ہاتھوں میں موبائل نہ ہو وہ قیمتی شب دے
غیروں کے طریقوں کو سمجھتا ہوں ترقی
یا رب مجھے آقا کی اِطاعت کا ادب دے
آوارہ خیالات کی پرواز ہو محدود
مرنے کی فکر پاؤں تو جینے کا ادب دے
تقوی بھی تہجد بھی غمِ غلبہِ دِیں بھی
لازم ہوں مسلمان میں وہ خوبیاں سب دے
ماتھے کی گرہ کھول دے سجدوں کی طلب دے
آنکھوں میں ندامت کی نمی آج دے اب دے
شاعری: ہدہد الہ آبادی