غرناطہ کا مدرسہ یوسفیہ صدیوں سے قبلہ رو کھڑا ہے۔ کسی کے انتظار میں یا شاید اس گمان میں کہ اس کے قریب کوئی اپنا بھی موجود ہے۔ جیسے کوئی اپنا کسی قریبی کو دفن کرنے کے بعد اس کی تربت پر اس گمان میں کھڑا ہو کہ قبر میں موجود جسم کو یہ احساس رہے کہ اس کا کوئی پیارا اس کے لیے کھڑا ہے۔ لیکن جس طرح قبر میں مردہ بے جان ہوتا ہے اور باہر اس کا پیارا غم اور دکھ سے لبریز۔ ٹھیک اسی طرح غرناطہ کے مدرسہ یوسفیہ میں مسجد کا یہ کمرہ بھی اس انتطار میں ہے کہ شاید امت کے اس بے جان جسم میں نئی روح پھونک دی جائے۔ اور صدیوں سے اذان اور تکبیر کا منتظر مسجد کا یہ کمرا بھی اللہ اکبر کی آواز سے سرشار ہو کر رب کے ہاں معافی کا نامہ بر بن کر کھڑا ہو جائے۔
چودھویں صدی کے آغاز میں غرناطہ کے حکمران یوسف اول نے جانع مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جسے آج بھی مدرسہ یوسفیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج کل کے موجودہ تصور کے برعکس یہ مدرسہ مذہبی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم دیتا تھا۔ یہاں مذہب، قانون، منطق، طب، ادب، فلکیات اور ریاضی پڑھائی جاتی تھی۔ اسی مدرسے کا ایک نمایاں طالب علم ابن الخطیب ہیں جو کہ ایک شاعر، فلسفی، مورخ، طبیب اور غرناطہ میں وزیر تھے۔ الحمرا میں دیواروں پر انکی شاعری آج بھی دکھائی دیتی ہے۔
غرناطہ کا مدرسہ یوسفیہ۔۔۔۔یہ جگہ ہے جو علم اور عزت کی آبیاری کرتی ہے
مدرسہ یوسفیہ ایک شاندار عمارت تھی جس کے سامنے کا حصہ سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا تھا۔ 1500 عیسوی میں مسلمانوں کو اندلس سے نکلانے کے بعد مدرسے پر قبضہ کر لیا گیا۔ تمام عربی میں لکھی کتابوں کو سرعام جلا دیا گیا۔ خیال ہے کہ کم از کم پانچ ہزار سے زیادہ کتابیں جلائی گئی تھیں. کچھ مورخین کے مطابق تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مدرسہ کی دیوار سے اکھاڑا گیا سنگ مرمر کا ایک ٹکڑا جو غرناطہ کے عجائب گھر میں رکھا گیا اس پر عربی میں ایک عبارت کندہ ہے. جس کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے۔ "اگر آپ کی روح جستجو کی چاہ رکھتی ہے اور لاعلمی کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے۔ تو یہ جگہ ہے جو علم اور عزت کی آبیاری کرتی ہے۔ علم حاصل کریں اور ستاروں کی طرح روشن ہو جائیں، اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کمال تک لے جائیں”۔
حسن اور دکھ کے گھاؤ سے کون بچ سکتا ہے؟
مدرسہ یوسفیہ کا ایک بڑا دروازہ طالبعلوں کے رہائشی کمروں کی طرف کھلتا تھا جس کے ایک جانب مسجد تھی۔ اب مسجد کا یہی ایک کمرہ اپنی درست حالت میں موجود ہے جو غرناطہ یونیورسٹی کی کسٹڈی میں ہے۔ مدرسے میں قبضے کے بعد اسے ٹاؤن حال میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہت سی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔
مسجد کا یہ کمرہ صدیوں سے ساکت، اکیلا اور انتظار میں کھڑا ہے۔ صدیوں سے بس ایک ہی انتظار میں۔ اذان کے انتظار میں، دور سے یا کہیں نزدیک سے، سجدوں کے انتظار میں، رکوع میں جھکی پیشانیوں کے انتظار میں۔ مگر۔۔۔ کہیں کوئی آواز نہیں ہے۔ ہر طرف گہری خاموشی ہے۔ قبرستان کی سی خاموشی۔ لیکن یہاں ایک سرگوشی ضرور ہے جو سننے والوں کو سنائی دیتی ہے ۔ اور وہ سرگوشی ہے و لا غالب الا اللہ۔ مسجد اور مدرسہ کی تصاویر دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ حسن اور دکھ کے گھاؤ سے کون بچ سکتا ہے؟
تحریر: تحریم افروز
Wow, superb weblog format! How lengthy have you been running a
blog for? you made running a blog glance easy.
The overall look of your site is great, let alone the content!
You can see similar: najlepszy sklep and here dobry sklep
Hi there to every one, it’s really a good for me to visit this
site, it contains important Information. I saw similar here:
e-commerce and also here: sklep internetowy
I like the helpful information you provide in your articles.
I will bookmark your weblog and check again here regularly.
I am quite certain I’ll learn a lot of new stuff right here!
Best of luck for the next! I saw similar here: Ecommerce
I am truly pleased to read this blog posts which contains plenty of
useful data, thanks for providing these kinds of information. I saw
similar here: Sklep online
Hey! Do you know if they make any plugins to assist
with SEO? I’m trying to get my blog to rank for some targeted keywords but
I’m not seeing very good success. If you
know of any please share. Cheers! You can read
similar blog here: Sklep internetowy
It’s very interesting! If you need help, look here: ARA Agency
Hey there! Do you know if they make any plugins
to assist with Search Engine Optimization? I’m trying to get my website to rank for some targeted keywords
but I’m not seeing very good gains. If you know of any please share.
Cheers! I saw similar text here: Auto Approve List