مدارس کے طلباء و اساتذہ ہنر مند یا بھکاری؟ موجودہ مدارس پر تحریر
مدارس کے طلباء کو دین کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں ہنر بھی سکھاؤ تا کہ وہ معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنا ہنر بیچیں… اور اگر انہیں ہنر نہیں سکھاؤ گے تو وہ معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنا دین بیچیں گے.
یہ فقرہ تو سب نے سنا کہ ہو گا. تو اب سوال یہ ہے کہ ہنر سے کیا مراد ہے. ہنر، فن یا یا سکِل سے مراد ہر وہ کام ہے جس میں آپ کا بچہ یا طالب علم دلچسپی رکھتا ہے. یا فطری طور پر اس کے اندر موجود ہے. یاد رہے ہنر وہ کام نہیں جس کی ڈیمانڈ زیادہ ہے… ہنر وہ کام بھی نہیں جس میں سکوپ زیادہ ہے… بلکہ ہر وہ کام ہنر ہے جس میں آپ کا بچہ یا آپ کا طالب علم دلچسپی لیتا ہے. اور سیکھ کر مقابلے کی دوڑ میں آگے رہ سکتا ہے
ڈیمانڈ کی بات کریں تو جس ہنر کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے وہاں مقابلہ بھی زیادہ ہوتا ہے اسی طرح جس کام میں سکوپ زیادہ ہوتا ہے وہاں بھی مقابلہ زیادہ ہو سکتا ہے. الغرض مقابلہ کی کیفیت ہر جگہ پر ہے. اور آپ کا طالب علم اگر مقابلہ کرنا نہیں جانتا تو سمجھیں وہ ناکام ہے. ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے طالب علم کا شوق کسی ایسے ہنر میں ہو جو بالکل منفرد ہو تو اس صورت میں وہ طالب علم سب سے نمایاں بھی رہے گا سب سے برتر بھی اور کامیاب بھی. اور اگر اس کی دلچسپی اور اس کا شوق عام سے ہیں تو سمجھ لیں اسے مقابلے میں آنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑے گی.
اب آ جائیں ہمارے مدارس کے انتظام و انصرام کے حوالے سے تو یہاں پر دین کی تعلیم تو برابر سکھائی جاتی ہے لیکن ہنر کون سا سکھایا جاتا ہے…؟ عین ممکن ہے آپ کہیں… ہنر تو کوئی نہیں سکھایا جاتا. لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں ہنر سکھایا جاتا ہے. لیکن اسے کوئی ہنر سمجھتا نہیں.
خطابت ایک ہنر ہے… جس کی وجہ سے ایک عالم دین ہزاروں لوگوں کو اپنے قریب کرتا ہے. اپنے طرز بیان سے انہیں مظوظ کرتا ہے… انہیں مسحور کرتا ہے. قرآت ایک ہنر ہے جس کی وجہ سے لوگ اس قاری کی آواز میں تلاوت سننے کی نیت سے مسجد کا رخ کرتے ہیں یا اپنے بچوں کو اس قاری صاحب کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں. اسی طرح مدرسے کا انتظام سنبھالنا ایک ہنر ہے جو ہر بندے کے بس کی بات نہیں. لوگوں کے ساتھ انفرادی ملاقات کر کے انہیں دین کی دعوت دینا ایک ہنر ہے… مختلف موضوعات پر قلم نویسی ایک ہنر ہے… حمد و نعت و منقبت یعنی اللہ، اس کے رسول اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف بھرے اشعار لکھنا یا انہیں خوبصورت آواز میں پڑھنا ہنر ہے…! گھڑ سواری تیراکی سٹک فائیٹ سیکھنا اور سکھانا ایک ہنر ہے…!
اور آج کل کے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق فیس بک پیج، یوٹیوب چینل، ویب سائٹ یا کسی اسلامی ایپ کو چلانا اور اس پر ٹریفک لانا قارعین و سامعین کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا ایک ہنر ہے. اور پھر اس سب کے بعد دین کے مختلف کام تاجر اور مخیر حضرات کو دکھا کر ان سے فنڈ ریزنگ کرنا، ان سے مالی تعاون لینا بھی ایک ہنر ہے.
یاد رکھیں ہر بندے کے پاس ہر ہنر نہیں ہوتا… ہر بندے سے امید بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اس ہنر میں مفید رہے گا… بس یہ ذہن میں رہے کہ مقابلے کی کیفیت رکنی نہیں چاہیے. مقابلہ کرتے رہنا چاہیے اگر آپ اپنے پسندیدہ اور منتخب کردہ ہنر کے مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں تو اسی سے ہی آپ کو رزق ملتا رہے گا ان شا اللہ. پھر آپ کو یہ طعنے سننے کی ضرورت نہیں کہ مدارس کے طلباء کو کچھ نہیں سکھایا جاتا.
اگر مدارس کے طلباء میں سے بیس فیصد ایسے ہیں جو چھ سال کسی مدرسے میں پڑھنے کے بعد کسی مسجد یا مدرسے میں فٹ ہوتے ہیں اور باقی سب ریڑھی لگاتے ہیں تو آئیے پھر ہم آپ کو پاکستان کی ٹاپ لیول یونیورسٹیوں اور کالجز کے رزلٹ دکھاتے ہیں جن کے دس فیصد سٹوڈنٹس کو جاب ملتی ہے اور باقی سب ڈگریاں اٹھائے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں چپڑاسی بھی نہیں رکھتا.
یعنی مقابلہ ہر جگہ پر ہے اور مقابلے کی دوڑ میں جیتے والا ہی کامیاب ہے. بس فرق یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی مختلف فکلٹیز ہوتی ہیں… ماسٹر پی ایچ ڈی ڈگریز ہوتی ہیں اور مدارس میں مبلغ، خطیب، قاری، نگران ،مہتمم کے علاوہ اور کسی کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا. نتیجتاً پھر ایسا کوئی طالب علم جو پانچ صفات کے علاوہ اپنے اندر کوئی اور ہنر رکھتا ہو وہ اہل مدارس کی نظر میں بیکار ہے جس کے نتیجے میں اس کی سرپرستی یا اس کے ساتھ مالی تعاون وغیرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا.
لیکن اس کے باوجود آپ میں سے اکثر احباب نے جمعہ نماز کے بعد چھوٹے چھوٹے مدارس کے طلباء کو ٹوپی خوشبو عطر رومال مسواک بیچتے دیکھا ہو گا. جی ہاں یہ تجارت ہے اور عین اسلامی تجارت ہے اور یہ بھی ہنر ہی ہے جو ہر بندہ نہیں کر سکتا. یہی طالب علم کل بڑے ہوتے ہیں اور اسی کام کو مزید احسن طریقے سے کرتے ہیں. میں ایسے بہت سارے علماء دین اور انجینرز کو جانتا ہوں جو اس طریقے سے تجارت کرتے ہیں.. مساجد بناتے ہیں.. خالص شہد و عطر بیچتے ہیں. آپ انہیں تاجر کہیں یا بزنس مین… میں تو انہیں اللہ کے دین کا داعی ہی کہتا ہوں.
اس لیے اہل مدارس کو چاہیے کہ احساس کمتری یا دفاعی پوزیشن میں آنے کی بجائے دنیا کو کھل کر بتائیں کہ اللہ نے ہمیں دین کی نعت بھی دی ہے اور ہنر بھی دیا ہے جس کی بدولت آج پاکستان میں لاکھوں مساجد لاکھوں مدارس آباد ہیں اور آباد رہیں گے ان شا اللہ.
تحریر :سلیم اللہ صفدر