جو دل کو روشن کیے ہوئے تھے وہ سارے دیپک بجھا دیے ہیں
جو دل کو روشن کیے ہوئے تھے وہ سارے دیپک بجھا دیے ہیں
سبھی جو پروانے مر رہے تھے الاؤ پر سے اڑا دیے ہیں
سکون ان کو،سکون ہم کو ،قرار جاں کو بھی آگیا ہے
رگوں میں ہلچل مچا رہے تھے وہ سارے رشتے بھلا دیے ہیں
تمہاری آمد کے منتظر ہیں جو آؤ ہم مر حبا کہیں گے
تمہاری راہوں میں جتنے حائل تھے سارے کانٹے اٹھا دیے ہیں
اے چارہ سازوں اے غمگساروں سمیٹ لو اپنے آسروں کو
کبھی جو مصدر تھے ہمدمی کے وہ زخم اپنے چھپا دیے ہیں
شکست خوردہ عدو کی صف میں جو دل گرفتہ ہیں جھوم جائے
کہ میرے ترکش میں تیر جتنے تھے سارے میں نے چلادہے ہیں
وہ کل کے دن تھے کہ سرنگوں تھے ابھی جو آؤ تو سربکف ہیں
جو میرے پاؤں جکڑ رہے تھے وہ عہد نامے جلا دیے ہیں
حبیب رخت سفر کو چھوڑ اب کہ جادہ پیما ہے قافلہ پھر
قدم جو اٹھنے تھے سوئے منزل وہ سوئے مقتل بڑھا دیے ہیں
جو دل کو روشن کیے ہوئے تھے وہ سارے دیپک بجھا دیے ہیں
سبھی جو پروانے مر رہے تھے الاؤ پر سے اڑا دیے ہیں
شاعری:عبداللہ حبیب
اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
You are in reality a excellent webmaster. This website
loading pace is amazing. It sort of feels that you’re doing any distinctive
trick. Furthermore, the contents are masterwork. you have performed a
excellent process on this subject! Similar here: novarique.top and
also here: E-commerce