یہ دمشق ہے | چار ہزار سال سے آباد ایک قدیم شہر

Damascus the ancient Muslim historical city

0 0

یہ دمشق ہے ۔ امویوں کا دمشق۔

اس وقت بھی آباد تھا، جب سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے دین حق کی منادی کی تھی۔ یہ سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان علیہم السلام کے عہد میں بھی آباد و پر رونق تھا۔ آشوریوں اور ایرانیوں نے بھی اس کی فصیلوں پر پرچم لہرائے۔ سکندر مقدونی بھی اپنا سکہ چلا چکا ہے۔ چودھویں سنہ ہجری میں سیدنا خالد بن ولید کے ہمراہ ابو عبیدہ ابن الجراح اور یزید بن ابی سفیان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں یہ فتح ہو کر اسلامی قلمرو میں شامل ہوا۔ خلیفہ سوم سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے دور میں اس کی باگ دوڑ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تھی۔ 40 ہجری سے یہ امویوں کا پایہ تخت اور تمام دول اسلامیہ کا مرکز بن گیا۔
مصر میں خلافت عباسیہ کی منتقلی کے بعد کبھی یہ مصر کے تابع رہا تو کبھی بغداد کے۔ سلجوقیوں نے بھی اسی دمشق پر حکومت کی اور پھر ہلال و صلیب کے معرکے شروع ہو گئے۔ یہاں مدرسہ ظاہریہ ہے جہاں ملک الظاہر کی قبر ہے۔ یہاں مدرسہ عالیہ بھی ہے جہاں ابن خلکان درس دیا کرتے تھے۔ ڈیوڑھیوں اور محرابوں والا مدرسہ افتائیہ بھی ہے جس کے محرابوں اور طاقوں میں کوڑا کرکٹ بھرا ہوا ہے اور ڈیوڑھیاں جہاں سے اندھی گلیاں جانے کہاں کہاں نکل گئی ہیں۔ سامنے سے بند نظر آنے والی گلی قریب جانے پر خم کھا کر کسی اور طرف نکلتی ہوئی محرابوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گی۔ کہیں ڈھلوانیں، کہیں سیڑھیاں تو کہیں چڑھائیاں۔

یہ دمشق ہے۔ مکتبوں کا دمشق

یہ دمشق ہے۔ مکتبوں کا دمشق، پرانی کتابوں کا دمشق، الف لیلوی دمشق۔ یہاں ایک آدھی ڈھئی مسجد ہے۔ یہ مسجد سلطان صلاح الدین ایوبی کے آقا سلطان نور الدین زنگی کی مسجد ہے اور اسی کے اندر ان کی قبر بھی ہے اور قبر کی ڈیوڑھی بے چراغ ہے۔ انہی بھول بھلیوں میں ڈوبتے ابھرتے جامعہ امویہ مینار دکھائی دیتے ہیں۔
پہلی صدی ہجری میں ولید بن عبد الملک بن مروان نے اس مسجد کو بنوایا تھا۔ بارہ ہزار معمار، کاریگروں اور سنگتراشوں نے یہاں شب و روز کام کیا تھا۔ پھر ایک کے بعد ایک سلطان، خلیفہ، پاشا، صوفی، درویش اور متکلم یہاں سربسجود ہوتے رہے۔ پھر یکایک شور اٹھا اور فرانس کا لوئی ہفتم اور جرمن قیصر کونارڈم سوم اپنے لشکر جرار اور نائٹس کے ہمراہ اس شہر پر ٹوٹ پڑنے کے لیے آن موجود ہوتا ہے۔ محاصرہ ہوتا ہے، تیغوں کا رن پڑتا ہے، منجنیقیں چلتی ہیں۔ پھر یہ بادل چھٹتے ہیں تو ایوبیوں کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ ایوبی پرچم کھلتا ہے اور کھلتا چلا جاتا ہے اور بیت المقدس کو اپنے سائے میں لے لیتا ہے۔

پھر سلاطین ایوبی تن آسانی پر اتر اتے ہیں تو ہلاکو خان کا لشکر فصلیوں، ڈیوڑھیوں اور محرابوں کو چیر کر شہر پر چڑھ آتا ہے، عیسائی بیوی کی خوشنودی کے لیے مسجد کو جلا کر ڈھیر کر کے وہاں اپنی مسند بچھا لیتا ہے، مگر ہلاکو کے جاتے ہی ایمان والوں نے مسجد کو کھڑا کر دیا اور پچاس مؤذنوں نے اس کے مشرقی منارے پر اذانیں دیں۔ مدرسے کھل گئے۔

لیکن یہ دمشق ہے اسے ابھی اور روندا جانا ہے

لیکن یہ دمشق ہے اسے ابھی اور روندا جانا ہے اب کی بار تیمور لنگ کی باری تھی۔ ایک بار پھر فصیل شق ہوئی،دمشق غارت ہوا اور مسجد سے ایک بار پھر شعلے اٹھنے لگے پھر اس کی ٹنڈ منڈ محرابیں اور دیوایں باقی رہ گئیں۔ یہ لشکر لوٹا تو دمشق دوبارہ آباد ہوا اور مسجد پھر کھڑی ہو گئی۔ پھر سلطان سلیم اول نے اسے تسخیر کر لیا۔ ایک کے بعد ایک سلطان کے نام کے خطبے یہاں پڑھے گئے اور آخر کار ترک بھی رخصت ہوئے۔
اب کی بار فرانسیسی یہاں آن دھمکے، لیکن، ان دیواروں اور ڈیوڑھیوں کو کوئی نا مٹا سکا کیونکہ یہ تو گنج شہیداں ہے۔
وقت کے پل سے کافی پانی گزرنے کے بعد دمشق، جامعہ اموی، عظمت رفتہ کی سجدہ گاہ ایک دفعہ پھر حافظ الاسد کے بعد اس کے وحشی بیٹے بشار کے خونیں جبڑوں میں تڑپنے لگی ۔ لیکن امت مسلمہ کے بیٹے یہ بات کبھی نہ بھلا سکے کہ تجھے ایک دفعہ پھر آباد ہونا ہے ایک دفعہ پھر امام مہدی، سیدنا عیسی علیہ السلام اور ان کے لشکر کی سجدہ گاہ بننا ہے۔ یہیں سے دجال کے قتل کے لیے جوانان جری نکلنے ہیں اور تجھے ایک دفعہ پھر اسلام کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے۔

یہ دمشق ہے | چار ہزار سال سے آباد ایک قدیم شہر
اور الحمدللہ آج وہ دمشق وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دارالحکومت ایک بار پھر سنی مسلمانوں کو واپس مل چکا. بشار الاسد روس بھاگ گیا. شامی جیلیں کھل گئی. قیدی آزاد فضاؤں میں سانس لینے لگے . شامی تارکین وطن الحمداللہ اپنے گھر واپس لوٹنے لگے. مساجد سے اذانیں گونج اٹھیں. حلب اور شامی بچوں کی مسکراہٹوں سے پورا دمشق جگمگا اٹھا.

دمشق ایک بار سنی مسلمانوں کے پاس

اور الحمدللہ آج وہ دمشق وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دارالحکومت ایک بار پھر سنی مسلمانوں کو واپس مل چکا. بشار الاسد روس بھاگ گیا. شامی جیلیں کھل گئی. قیدی آزاد فضاؤں میں سانس لینے لگے . شامی تارکین وطن الحمداللہ اپنے گھر واپس لوٹنے لگے. مساجد سے اذانیں گونج اٹھیں. حلب اور شامی بچوں کی مسکراہٹوں سے پورا دمشق جگمگا اٹھا.

مسلمانوں کی وہ عظمت رفتہ جو روسی طیاروں کی بمباری میں راکھ کے ڈھیر میں دفن سمجھی جا رہی تھی عشروں تک شامی جیلوں کی راکھ تلے سلگتی رہی اور بالآخر اچانک وہ چنگاڑی بھڑکی، شعلہ بنی اور افق عالم روشن کر گئی. مسلمانوں کی جرات و غیرت کی وہ داستانیں جو دمشق کی مساجد کے میناروں میں جھلکتی تھیں ، اس کے منبر و محراب سے عیاں ہوتی تھیں آج پورے عالم میں اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں اور دنیا کو بتا رہی ہیں کہ دین محمد دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں.

دمشق فتح ہوا… مسلمان اپنے گھر واپس لوٹ آئے. مساجد کی رونقیں بحال ہوئی. جامع مسجد اموی کے میناروں سے بلند ہوتی اذان اور اللہ اکبر کی آواز افق پر گونج اٹھی. وہ دمشق جسے امام مہدی اور عیسی علیہ السلام کی آمد تک بھلا دیا گیا تھا ایک بار پھر امت مسلمہ کی آنکھوں کا تارہ بن گیا. اسلام کا ایک قلعہ جس کی دیواروں پر ایک بار پھر اسلامی پرچم مزین ہوئے … جس کی مساجد میں ایک بار نعرہ تکبیر بلند ہوا اور جس کی فضائیں ایک بار پھر قال اللہ اور قال رسول اللہ کی آوازوں سے معطر ہوگئیں

چلو فاتحہ پڑھنے ہیں، سیدنا بلال حبشی رضی الله عنہ کے مزار پر، عبد الله بن ام مکتوم رضی الله عنہ کی تربت پر، عمر بن عبد العزیز کی قبر پر، سیدہ زینب، سیدہ سکینہ، اسماء بنت ابوبکر، سیدہ فاطمہ بنت حسین اور ان قبرستانوں کے پھیلے ہوئے کھنڈرات میں موتیوں کی قبور پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔

تحریر: تحریم افروز 

ہمارے حکمران ایسے نہیں ہوں گے….مئی سے مئی تک

اگر آپ اسلامی تاریخ پر مشتمل مزید واقعات پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.