ارضِ بنگال سے یہ صدا آ گئی
میرے گلشن میں بادِ صبا آ گئی
خونِ طلبا کی خوشبو سے مہکا چمن
سوچا انجام تھا، ابتدا آ گئی
دشمنوں کے ستم کا جواب آ گیا
دیکھو لو خون سے انقلاب آ گیا
فکرِ سیدؒ سے پھر جگمگائی فضا
خواب اقبالؒ پر بھی شباب آ گیا
آج کہتی ہے البدر کی داستاں
ہے شہیدوں کا خوں رنگتِ جاوداں
ہر شہادت جو تاریخ میں ہے رقم
بن گئی ہے چراغِ رہِ کارواں
وہ جوانی، جو مقتل روانہ ہوئی
بن کے مشعل وہ راہوں میں جلنے لگی
جن کے سر کاٹ کر گھر کو اونچا کیا
ان کی آہوں سے دیوار گرنے لگی
ہر گلی کوچہ بنگال کا ہے گواہ
کربلا کی طرح خون جس میں بہا
جس کے لاشے بھی تھے زندگی کا پیام
یاد آتا ہے وہ قافلہ بدر کا
قدسیوں سے سنا ہے یہ میں نے علیؔ
شیر پھر سے وہ بیدار ہو جائے گا
اپنے اسلاف کی راہ پہ چلنے کو
ہر جواں پھر سے تیار ہو جائے گا