مبشر احمد ربانی صاحب | علم کا ایک ستارہ جو کہکشاں سے جا ملا
مفتی اعظم مبشر احمد ربانی صاحب کی باسعادت زندگی پر ایک تحریر
لوگ تو دنیا میں آتے ہی رہتے ہیں اور جاتے بھی رہتے ہیں…
کچھ لوگ اپنے لیے جیتے ہیں اپنے لیے مرتے ہیں… لیکن کچھ لوگ اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں. نہ ہی کوئی دولت بناتے ہیں اور نہ ہی کوئی سرمایہ کاری. بس اجر بناتے ہیں اجر کماتے ہیں اور اجر کی امید رکھتے ہیں
مفتی اعظم مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کی زندگی بھی کمال زندگی تھی.
مبشر احمد ربانی صاحب ساری زندگی سیکھتے اور سکھاتے رہے. دین کی محبت دل میں لیکر نجانے کتنے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرنے کی جدوجہد کرتے رہے. علم کی شمع پہلے اپنے من میں جلائی اور اس کے بعد اس شمع کی روشنی سے نجانے کتنے چراغ کہاں کہاں روشن کیے… اللہ ہی جانتا ہے.
توحید ، سنت، جہاد جیسے وہ تمام اشکالات جو موجودہ نوجوان نسل کے اذہان میں گھر کر چکے ہیں انہیں ایک ایک کر کے دور کیا. اللہ کے دین کے ایک ایک پہلو کا سمجھایا بتلایا اور سکھلایا. کہیں پر کوئی کمی نہ کی.
علم سے محبت ان کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی اور علم سکھانے کا جذبہ ان کی رگ رگ میں دوڑتا تھا. راقم کی زندگی میں ایک ہی بار ان سے فیس ٹو فیس ملاقات ہوئی اور وہ بھی کہاں؟ مانسہرہ کے پہاڑوں میں…. یہ ملاقات مختلف سوال و جواب کی نشست پر مشتمل تھی. کتابیں تو ان کی پہلے بھی بہت پڑھی تھیں لیکن ملاقات پہلی بار ہوئی اور دل میں یقین بیٹھ گیا کہ یہ کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ علم کا مینار ہیں جہاں سے روشنی پانے والے اپنے راستوں سے کبھی نہیں بھٹکتے.
سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہزاروں شاگردوں کے استاد
مبشر احمد ربانی صاحب دنیا میں علم پھیلانے آئے تھے پھیلا کر چلے گئے اور آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا علم کسی ایک مسجد، ایک شہر یا ایک دل تک محدود ہے. وہ ایک سینے میں موجود علم ہزاروں بلکہ لاکھوں سینوں میں الحمدللہ منتقل ہو چکا اور اس علم کی بدولت ہزاروں مسلمان روزانہ اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں. اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کا اجر و ثواب رک گیا تو وہ غلطی پر ہے. بھلا علم کا نور بھی کبھی رکتا ہے؟ ہر وہ لفظ جو انہوں نے پڑھایا، ہر وہ بات جو انہوں نے سکھائی اور ہر وہ مسئلہ جو انہوں نے سمجھایا… وہ اہل اسلام کے سینے منور کر چکا ہے اور منور کر رہا ہے.
میرا گمان ہے کہ انہوں نے اپنی چند دن کی زندگی کا مقصد ہی یہ بنا لیا تھا کہ جس قدر ہو سکے وہ علم کی اس دولت کو جو انہوں نے کمائی ہے اس دولت کے ضرورت مندوں میں تقسیم کر سکیں اور اس بنیاد پر اپنے رب کے آگے سرخرو ہو سکیں۔ اس مقصد کے لئے انہون نے قلم استعمال کر کے تحاریر بھی لکھیں، منبر رسول پر کھڑے ہو کر اپنی زبان کی تاثیر سے لوگوں کو دین کی طرف راغب کیا اور اسی طرح ایک مدرسہ اور لائبریری بنا کر تشنگان علم کی راحت کا ایک سامان پیدا کیا۔ اللہ رب العزت نے اپنے دین کو پھیلانے کے لئے ان سے کام لیا اور یقینا اللہ تعالی انہیں اس کا بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔
میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت مبشر احمد ربانی صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے… ان پر اپنی رحمت کرے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے
تحریر : سلیم اللہ صفدر
اگر آپ مفتی مبشر احمد ربانی صاحب کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی وزٹ کریں
دینی مدارس بمقابلہ عصری تعلیمی ادارے | اعتراض اور تنقید آخر کیوں ؟