بندروں کا زنا کرنا اور رجم کی روایت| محترم ابوبکر قدوسی صاحب کے قلم سے
فتنہ انکار حدیث کے رد میں ایک روایت کی وضاحت و تشریح
بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ جو پہلی نظر میں ہمارے دوستوں کو کچھ اجنبی لگتی ہے جیسے بندروں کا زنا کرنا اور پھر رجم کرنا۔ فورا سمجھ نہیں آتی تو انکار کر دیتے ہیں ۔ کچھ دیر اگر رک جائیں تو اس انکار کی نوبت نہ آئے ۔ ایسی احادیث میں ایک یہ روایت بھی ہے جو صحیح بخاری میں امام بخاری لے کر آئے ہیں ۔
کتاب: انصار کے مناقب
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان
ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، ان سے حصین نے ، ان سے عمر و بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا دیکھی اس کے چاروں طرف بہت سے بندر جمع ہوگئے تھے ، اس بندریا نے زنا کرایا تھا اس لیے سبھوں نے مل کر اسے رجم کیا اور ان کے ساتھ میں بھی پتھر مارنے میں شریک ہوا. صحیح بخاری – حدیث 3849
بخاری کی کسی بھی حدیث کو سمجھنے کے لیے اولین قرینہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اسے کس کتاب اور باب کے تحت لے کر آئے ہیں ۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ ابواب بندی بذات خود تفقہ کا شاہ کار ہے ۔ مولائی ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری کی فقاہت کے اعلیٰ مقام کو جاننے کے لیے بخاری کے ابواب ہی کافی ہیں ” ( مفہوم )
امام بخاری رحمہ اللہ بسا اوقات ایسی روایت بھی لے کر اتے ہیں کہ جس کا ظاہری معنی اور مفہوم بیان کرنا ان کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس کے کسی ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے اس روایت کے لانے کا مقصد بھی دراصل اس کے مرکزی راوی جناب عمرو بن میمون کا تعارف مقصود مبذول تھا کہ وہ کس قوم قبیلے سے ہیں یعنی مقصود راوی کا تعارف تھا تو اس واسطے ان سے مروی اس روایت کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا ۔ امام کا یہ بنیادی مقصد نظر انداز کر کے اس روایت کے مضمون پر خوب ہنگامہ آرائی چلتی رہتی ہے ۔
عمرو بن میمون مخضرمی ایک تابعی تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو پایا لیکن ان کے حین حیات اسلام قبول نہ کیا اور بعد میں مسلمان ہوئے ۔ اور وہ یہ واقعہ اپنے دور جہالت میں دیکھا ہوا بیان کر رہے ہیں ۔ جس کے درست یا غیر درست ہونے سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہ واقعہ قول رسول یا اسلام کی تعلیمات سے ہے ۔
ایک اور اہم پہلو اس واقعے سے یہ بھی سامنے آتا ہے کہ جانوروں میں بھی اپنے پارٹنر یا ساتھی کی غیرت ہو سکتی ہے ۔
امام ابن عبد البر کی رائے میں تو یہ جنات تھے اور جنات پر احکامِ شریعہ لاگو ہوتے ہیں ۔
ایک بات طے ہے کہ جانور انسانی شریعت کے مکلف نہیں ہیں اور نہ ان پر جزا و سزا کے احکام لاگو ہوتے ہیں ۔ اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے رجم کی سزا کو ثابت نہیں کیا کہ کوئی صاحب اعتراض کریں اور رجم کی سزا ثابت کرنے کے لیے احکامِ شرعیہ ہی کافی ہیں ۔ یہ محض ایک عقل کو حیران کر دینے والا واقعہ ہے کہ جیسے کئی واقعات خود قرآن کریم میں بھی موجود ہیں ۔ بطور مثال فرشتے کا سیدہ مریم کے پاس آنا اور ان کا بن خاوند حاملہ ہونا اس سے کہیں بڑا واقعہ ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں ۔
اسی طرح جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو مارا اور پھر پشیمان ہوا اور فکر مند کہ لاش کا کیا کرے تو ایسے میں کوا آیا اور اس کے سامنے گڑھا کھودا ۔۔۔
"پھر ﷲ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے”
چونکہ یہ تمام تر واقعہ قران کریم میں آیا ہے تو اس پر احباب دم سادھ لیتے ہیں ۔ اگر یہی واقعہ حدیث میں ہوتا تو انکار بھی کیا جاتا اور ٹھٹھہ بھی اڑایا جاتا ۔ اس واقعے پر کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ کیا اب شریعت کے احکامات جانوروں کے ذریعے لاگو کئے جائیں گے اور سمجھائے جائیں گے ؟
ہم بھی اور سب ہی کوے کے اس واقعے کو محض ایک مسلے کی تفہیم کے لیے لیتے ہیں جو قابیل کو پیش آیا اور اسے سمجھ بھی آ گئی ۔ اور اس نے اپنی حالت پر افسوس کرتے ہوئے کہا تھا:
"اس نے کہا: ہائے افسوس! کیا میں اس کوّے کی مانند بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔”
یہاں تو کوا ایک انسان کو باقاعدہ تعلیم دینے آ رہا ہے اور آپ اسے قبول کر رہے ہیں جبکہ اس روایت والے واقعے میں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ راوی دور جاہلیت اور قبل از اسلام کا اپنا ایک دیکھا قصہ سنا رہے ہیں ۔ جس سے نقل کرنے والے امام بخاری اس سے احکام رجم بھی ثابت نہیں کر رہے لیکن محض ایک محیر العقول واقعہ ہونے کے سبب آپ فوراً انکار کرتے ہیں اور استہزاء شروع کر دیتے ہیں ۔
اسی طرح ہدہد بارے قران کریم میں جو واقعات ذکر کئے گئے ہیں وہ اس سے کچھ کم عجب تو نہیں کہ کس طرح اس نے آ کر سیدنا سلمان علیہ السلام سے گفتگو کی ۔ اور اسی طرح چیونٹوں کا سیدنا سلمان علیہ السلام کے لشکر کو دیکھ کر مکالمہ کرنا۔۔۔۔
جہاں تک تعلق ہے جانوروں کے ایسے واقعات کا تو آئیں ذرا آپ کو کچھ سیر کروائیں۔ لیکن یہ آپ کو اس سبب عجیب نہیں لگیں گے کہ یہ مغربی ممالک کے حیوانات کے ماہرین کے بیان کردہ ہیں ۔
یہ دیکھیں ایک صاحب کہ جو ڈولفن مچھلی والی مشہور فلم کے اداکار تھے وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں :
وہ لوگ جنہوں نے چار دہائیوں قبل مشہور زمانہ ٹی وی فلم’’فلپر‘‘ Flipper (1963 film) دیکھی ہوگی، انہیں فلم میں مرکزی کردارادا کرنے والی ڈولفن مچھلیاں یاد ہوں گی، جو اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کہانی میں مسائل حل کرتی نظر آتی تھیں ان مچھلیوں میں سے ایک ڈولفن مچھلی کا نام ’’کیتھی‘‘ تھا، کیتھی کے ٹرینر ’’رچرڈ اوبرے‘‘ کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ کیتھی کے ساتھ سوئمنگ پول میں تیر رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ کیتھی بہت سست ہورہی ہے اور گاہے بگاہے پانی میں رک کر ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اسی اثناء میں کیتھی ان کے بازوؤں پر آئی رچرڈ کی جانب دیکھا اور پھر ایسا لگا جیسے اس نے سانس روک لی ہے۔ اس کا جسم گرم تھا اور وہ بیمار بھی نہیں تھی۔ تاہم اس نے دوبارہ سانس نہیں لی اور ا پنے ٹرینر کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اس حوالے سے رچرڈ اوبرے کا کہنا ہے کہ ڈولفن ایک ایسا جان دار ہے، جس کا دماغ انسان سے بڑا ہے اور وہ خود شناس بھی ہوتا ہے اور جن ایام میں کیتھی نے خودکشی کی ان دنوں وہ فلم کی کاسٹ سے باہر تھی ۔۔”
یہ بہت دلچسپ رویہ ہے کہ اس رپورٹ کو مان لیا گیا یعنی جانور خودکشیاں کریں تو تسلیم لیکن دوسرے جانوروں کو سزا کے طور پر ماریں تو انکار ۔۔
روزنامہ ایکسپریس میں چھپا یہ واقعہ بھی پڑھ لیجیے اور اس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ جانوروں میں ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں
” گبون میں واقع لونگو نیشنل پارک میں ایک پی ایچ ڈی طالبعلم نے دیکھا کہ ایک ماں چمپانزی نے اپنے بچے کے کھلے زخم پر ایک کیڑا پیس کر بطور مرہم لگایا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کا رجحان چمپانزیوں میں اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔ پارک میں سوزی نامی مادہ چمپانزی نے اپنے بچے سیا کے پیر پر ایک کھلا زخم دیکھا۔ اس کے بعد اس نے کچھ دور جاکر مٹھی میں کوئی شے دبائی اور اسے منہ میں رکھ کر پیسا اور اس کے بعد زخم پر مل دیا۔
اس کے بعد ایسے کئی واقعات دیکھے گئے اور ریکارڈ ہوئے جس میں چمپانزیوں نے ہوا میں اڑتے کیڑے پکڑے ، پھر انہیں منہ میں رکھ کر پیسا اور زخم پر لگایا۔ اس طرح پورے پارک میں ایسے 22 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں چمپانزیوں نے زخمی یا بیمار ساتھی کا علاج کیا اور اکثریت میں کیڑوں کو استعمال کیا گیا۔”
ابھی اور لیجیے جانوروں نے اپنی "ایدھی فاؤنڈیشن” بھی بنائی ہوئی ہے ۔اس واقعے کو میں نے بہت مختصر ذکر کیا اس میں سیلاب میں جانی دشمن جانوروں نے ایک دوسرے کو ریسکیو کیا ۔
"کوئنزلینڈ: آسٹریلوی ریاست کوئنزلینڈ میں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، لوگوں نے اسے دیکھا تو آنکھوں دیکھے پر یقین نہ آیا، کیوں کہ نظر آنے والا منظر جانی دشمنوں پر مبنی تھا۔
اس حیرت انگیز منظر میں چوہوں، مینڈک اور بھنورے کو سانپ کی سواری کرتے دیکھا جا سکتا ہے، ایسے مناظر عام طور سے دکھائی نہیں دیتے لیکن کوئنز لینڈ میں حالیہ سیلاب نے جانی دشمن جانوروں (سانپ، مینڈک اور چوہے) کو زندہ رہنے کے لیے ایک ٹیم کی طرح پر کام کرنے پر مجبور کیا۔”
میں نے جب یہ مضمون لکھنا چاہا تو اس کے لیے اپنی لائبریری میں موجود جانوروں کے عجیب و غریب واقعات پر مشتمل کتاب کو سرسری سا دیکھا ۔ اس میں اتنے زیادہ عجیب واقعات ہیں کہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہ کمال کا قصہ دیکھیں ۔
ایک شکاری نے ہاتھیوں کا یہ واقعہ لکھا کہ پھلدار باغ کے گرد خاردار تار بچھا دی گئی تاکہ ہاتھی رات کو آ کر پھل کو برباد نہ کریں ، لیکن آدھی رات کو انہوں نے خار دار تار کا تیا پانچا کیا اور اندر گھس آئے ۔ دوسرے روز رکھوالوں نے اس تار کو جنریٹر سے منسلک کر دیا حیرت انگیز طور پر ہاتھی مقررہ وقت پر آئے لیکن تاروں کے قریب پہنچ کر رک گئے ۔ جب تک جنریٹر چلتا رہا اور کیمپ کی بتیاں روشن رہیں ہاتھی بھی ٹھہرے رہے ۔ ان کی فراست نے ان کو سمجھا دیا تھا کہ تار میں موجود بجلی کا تعلق جنریٹر سے ہے ۔ جیسے ہی جنریٹر بند ہوا تو وہ تار کو گرا کر اندر آگئے اور پھل کھایا ۔
تیسری رات یہ فیصلہ کیا گیا کہ جنریٹر بند نہ کیا جائے ساری رات چلتا رہے ، نتیجہ یہ رہا کہ ہاتھی اندر نہ آ سکے ۔
بظاہر کہانی ختم ہو گئی لیکن کیا کیجیے کہانی ختم نہ ہوئی ہاتھی بھی بندر کی طرح چالاک تھے انہوں نے دریافت کر لیا کہ ان کے لمبے ہاتھی دانت بجلی کا موصل نہیں ہیں اور ان سے بجلی نہیں گزر سکتی ۔ سو ایک ہاتھی تار کو اپنے دانت سے دبا کر کھڑا ہو گیا اور باقی ہاتھی اس تار کو پھلانگ کر اندر داخل ہوتے گئے اور پھل کھاتے گئے ۔ یقینا صبر کا پھل ہی نہیں فراست کا پھل بھی میٹھا ہوتا ہے ۔ اس تمام واقعے کا علم شکاریوں کو پانچویں رات ہوا جب انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک ہاتھی کو دانت کی مدد سے تار کو نیچے دبائے دیکھا تھا۔۔۔
یہ میں نے چلتے چلتے کچھ واقعات پیش کیے ہیں وگرنہ محنت کی جائے تو جانوروں کے ایسے کئی عجیب و غریب واقعات سامنے آئیں کہ بخاری کا یہ واقعہ کچھ عجیب نہ لگے ۔
آخر میں یہی روایت تفصیل سے لکھ رہا ہوں جسے امام بخاری اپنی کتاب تاریخ کبیر میں لائے ہیں جبکہ صحیح بخاری میں مختصر لکھا تھا جو مضمون کے شروع میں آپ نے پڑھی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری روایت۔۔۔۔۔۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں میں یمن میں تھا اپنے لوگوں کی بکریوں میں ایک اونچی جگہ پر میں نے دیکھا ایک بندر بندریا کو لے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سرکے نیچے رکھ کر سوگیا اتنے میں ایک چھوٹا بندر آیا اور بندریا کو اشارہ کیا اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا اور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی اس نے اس سے صحبت کی میں دیکھ رہا تھا پھر بندریا لوٹی اور آہستہ سے پھر اپنا ہاتھ پہلے بندر کے سر کے نیچے ڈالنے لگی لیکن وہ جاگ اٹھا اور ایک چیخ ماری تو سب بندر جمع ہوگئے ۔ یہ اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چیختا جاتا تھا۔ آخر دوسرے بندر ادھر ادھر گئے اور اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے ۔ میں اسے پہچانتا تھا پھر انہوں نے ان کے لئے گڑھا کھودا اور دونوں کو سنگسار کر ڈالا تو میں نے یہ رجم کا عمل جانوروں میں بھی دیکھا۔
اب اگر آپ یہ مکمل روایت دیکھ لیں تو اس میں کچھ بھی عجیب نہیں ہے ، جانوروں میں بندر انسان سے فراست و عادات میں قریب تر ہے اور "ہمارے ملحدین” کے تو اجداد میں بھی شامل ہے ، انہیں تو اس روایت پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کے سلسلہء نسب میں ایسی فراست پائی جاتی تھی کہ جس کو مسلمان بھی بذریعہ بخاری تسلیم کر رہے ہیں ۔
ہاں ایک پہلو ایسا ہو سکتا ہے کہ جس سبب وہ مضطرب ہو سکتے ہیں کہ پارٹنر کے معاملے میں اس روایت سے بندر کی غیرت ثابت ہو سکتی ہے جب کہ ہمارے ” ملحد دوست ” فری سیکس معاشرے کے دعوت کار ہیں۔
تحریر: ابوبکر قدوسی صاحب