جہالت کے تالے اسلام نے کھلوائے |ویجائنا کو تالے کس نے لگائے؟
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے الزامی کالم کے جواب میں لکھی گئی تحریر غنی محمود قصوری کے قلم سے
مورخہ 3 جولائی 2023 کو طاہرہ کاظمی کا ایک کالم ویب چینل،ہم سب ڈاٹ کام، پہ شائع ہوا جس کا نام ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا کہنا ہے کہ یہ کالم انہوں نے پاکستان میں کام کرنے والی گائناکالوجسٹ( لیڈی ڈاکٹروں و گائنی سٹاف) کی وساطت سے پوری نیک نیتی سے اور پوری ذمہ داری سے لکھا ہے۔
جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے کچھ قبائلی علاقوں میں عورت کی ویجائنا ( عورت کی شرم گاہ) کو ان کے شوہر تالا لگا دیتے ہیں۔ تاکہ وہ عورت کہیں اور منہ نا مار سکے۔ یعنی اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور سے راہ مراسم نا رکھ سکے۔
خیر ایک کالم انہوں نے لکھا جس کو میں سچ مان لیتا ہوں۔ اور بطور ثبوت ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سے سوال کرتا ہوں کہ اگر ایسا ہے تو خدارا یہ بات پورے ثبوت کے ساتھ سامنے لے کر آئیں۔ اور ایسے غلیظ لوگوں کو سزا دلوانے میں کلیدی کردار ادا کریں تاکہ آپکی وجہ سے کئی عورتوں کی زندگیاں اذیت سے بچ سکیں اور وہ اسلام کی دی ہوئی آزادی میں پوری آب و تاب سے زندگی گزار سکیں۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے یہ تالے حقیقت میں دیکھے ہیں یا نہیں مگرپروف دینا ان پہ لازم ہے تاکہ ریاست پاکستان اس ظلم کو روکے
کیونکہ اسلام کے مطالعہ میں کہیں بھی ایسا کوئی تصور نہیں۔ اور نا ہی ایسا جبر ہے بلکہ اسلام تو عورت کو ایک خاص مقام مہیا کرتا ہے۔ اور اس بات پہ زور دیا گیا ہے کہ مرد اپنی بیوی کی ہر ضرورت اپنی بساط کے مطابق لازمی پوری کرے۔ اگر وہ نا پورا کر سکے تو اسلام نے جہالت کے تالے توڑتے ہوئے عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے۔
مجھے قطعاً علم نہیں کہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے یہ تالے حقیقت میں دیکھے ہیں یا نہیں۔ مگر پروف دینا ان پہ لازم ہے تاکہ ریاست پاکستان اس ظلم کو روکے۔
اور اگر انہوں نے یہ بات محض اڑتا تیر کے مصداق چھوڑی ہے تو یہ بہت ہی غلط بات ہے۔
راقم نے تحقیق کی خاطر ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی فیسبک وال کا وزٹ کیا جہاں اس بات پہ سخت مایوسی ہوئی کہ کچھ نام نہاد دین کے ٹھیکیدار ملاں حضرات بجائے طاہرہ کاظمی سے پروف مانگنے کے اور ایسے ظالم مردوں کو سزا دینے کے مطالبے کے بجائے انتہائی گندی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنی گندگی ظاہر کر رہے ہیں۔
چائیے تو یہ تھا یہ لوگ عملاً پروف دیتے ہاں یا پھر ناں! مگر یہ لوگ تو گندگی پہ اتر آئے۔
اگر کوئی مجھ جیسا دنیا دار ایسا کرتا بات تب بھی کچھ اور تھی۔ مگر یہاں تو نام نہاد ملاں بھی اس کام میں شامل ہیں جن میں سے اکثر کو میں ذاتی جانتا ہوں۔
عورت صنف نازک ہے اور اسے سماج کے ظالم درندوں سے بچانا اسی طاقتور مرد کا فرض ہے
ٹھیک ہے انسان خطاء کار ہے۔ گالی بھی دے سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کی بات کی تحقیق کی بجائے اس پہ گندگی اچھالی جائے۔ اور بجائے بات کی تہہ تک جانے کے ایک عورت پہ
ٹھرک، ہوس، فرسٹریشن یا جنسی ہراسمنٹ کا راستہ بنایا جائے۔
خیر میں ایک قلمکار ہوں۔ میں دونوں طبقوں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی اور نام نہاد دین کے ٹھیکیدار بنے بغیر دلیل ملاؤں کو مخاطب کرکے بتلاتا ہوں کہ کس طرح دین اسلام نے عورت پہ لگے جہالت کے تالے تڑوائے۔
اسلام میں مرد حاکم تو ضرور ہے مگر درحقیقت ایک وفا شعار مرد اپنی بیوی،بہن,،بیٹی کا درحقیقت رکھوالا اور چوکیدار ہونے کیساتھ اس کا غلام بھی ہے۔ اور اس غلامی پہ فخر بھی ہے کیونکہ عورت صنف نازک ہے۔ اور اسے سماج کے ظالم درندوں سے بچانا اسی طاقتور مرد کا فرض ہے
آج بھی مغرب میں عورت اپنے مرد کے شانہ بشانہ کام کرکے بچے پالتی ہے۔ جبکہ اسلام میں مرد کو حاکم قرار دیتے ہوئے گھر کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ سو مطالعہ اسلام کرلیں کمانا اور گھر چلانا مرد پہ فرض ہے نا کہ عورت پہ۔
ہاں عورت اگر اپنی مرضی سے مرد کی معاون بنے تو کوئی روک ٹوک نہیں۔ کہ اس سے گھر و معاشرے میں مذید خوشحالی آتی ہے۔
آج ارض پاک میں عورت وزیر اعظم ،ایم پی اے, ایم این اے،سینیٹرز،ڈاکٹرز،پائلٹ، جج بلکہ سب سے اہم و
مشکل محکمے فوج میں جرنیل تک جا پہنچی ہے۔ اور یہ سب اسلام کی عورت کو دی گئی برابری کے باعث ہی ممکن ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے قران کی ایک سورہ کو عورت نام کی نسبت سے نساء رکھ دیا
حالانکہ اسلام نے جو مقام عورت کو دیا وہ کسی اور مذہب نے نا تو دیا ہے نا ہی دے پائے گا۔
قران مجید فرقان حمید میں ایک سورہ کا نام نساء ہے جس سے عورت کی حرمت وضع ہوتی ہے۔
یعنی صنف نازک کا اس قدر احترام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران کی ایک سورہ کو عورت نام کی نسبت سے نساء رکھ دیا۔
کیا کسی اور مقدس کتاب میں بھی ایسا ہے؟
ہرگز نہیں
دورِ جاہلیت میں عرب کی عورتوں کی قدر و منزلت ذرہ برابر بھی نہ تھی
وہ ہر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھی۔ اس دور جاہلیت میں عورت صرف ورثے ہی سے محروم نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کی جائیداد میں شمار ہوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائیداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اور بازاروں میں مویشیوں کی طرح بیچ دیا جاتا۔ یا پھر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور عورت کو برابری نہیں بلکہ مرد سے زیادہ تکریم و تعظیم کے درجات ملے
اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی کریم سے بذریعہ وحی پیغام بجھوایا جو آج بھی ویسے ہی ہے
ترجمہ ۔ (اور) جس بات کی اسے خبر دی گئی ہے اس کی(مزعومہ) شناعت کے باعث وہ لوگوں سے چھپتا (پھرتا) ہے (وہ سوچتا ہے کہ) آیا وہ اسے(پیش آنے والی) ذلت کے باوجود( زندہ ) رہنے دے یا اسے( کہیں ) مٹی میں گاڑ دے ۔ سنو جو رائے وہ قائم کرتے ہیں بہت بری ہیں۔ (النحل:59 ۔۔60)
یہ آیت اس بابت نازل ہوئی کہ عورتوں کو زندہ درگور کرنا سخت گناہ ہے۔ سو حضرت آدم کا بیٹا اس گناہ عظیم سے دور رہے۔
اسلام نے جہاں مردوں کے لئے علم کو فرض قرار دیا وہاں عورت کے لیے بھی اس کے دروازے کھولے
دوسری جگہ فرمایا
ترجمہ ۔ اللہ نے تمہیں ایک (ہی) جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے ہی اس کا جوڑا پیدا کیا۔ (النساء:1)
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے عورت اور مرد بحیثیت انسان ایک ہی منصب پر فائز ہیں۔ مطلب یہ کہ عورت سے غیر انسانی برتاؤ کی مکمل نفی ہو گئی۔ اور جو ایسا کرے گا اس پہ حد لگے گی۔ کیونکہ وہ عورت بھی انسان ہے اور ہر مرد کی طرح اس کے بھی جذبات ہیں۔ احساسات ہیں، وہ بھی مردوں کی طرح کھاتی، پیتی ، سانس لیتی اور دیگر معاملات میں مردوں کی طرح مساوی حیثیت کی حامل ہے۔
اس آیت سے عورت کی مرد پر بعض امور میں برابری واضع ہے۔
اسلام نے جہاں مردوں کے لئے علم کو فرض قرار دیا وہاں عورت کے لیے بھی اس کے دروازے کھولے۔ اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں سب کو ختم کردیا۔ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی۔ اور اس طرح وہ جہالت کے تالے جو صدیوں سے قبائل عرب کی عورتوں کا زیور سمجھے جاتے تھے ٹوٹ گئے۔
جیسا کہ رسولِ خدا نے فرمایا کہ
عِلم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت)پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
اور دوسری جگہ حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
ترجمہ : جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ (ابو داؤد)
میرے نبی نے برابر حقوق دے کر اعلی مقام عطا فرمایا اور یہ سب جہالت کے تالے توڑ ڈالے
واغع رہے کہ نا تو دور جہالت میں مرد کو زندہ درگور کیا جاتا تھا نا ہی مرد کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ سب قدغنیں عورتوں کے لئے ہی تھیں۔ جن کو میرے نبی نے برابر حقوق دے کر اعلی مقام عطا فرمایا اور یہ سب جہالت کے تالے توڑ ڈالے۔
پھر بھی کوئی آج عورت کی تضحیک کرے تو وہ اپنی عقل کا علاج کروائے۔ اور مطالعہ اسلام کرے۔ کیونکہ ایک پکے سچے مسلمان کے ہاں عورت ماں کے روپ میں جنت،بیوی کے روپ میں عزت،بہن کے روپ میں راز دان اور غرور،بیٹی کے روپ میں رحمت ہے۔
میں حکومت وقت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی بات کا نوٹس لیا جائے اور اگر اس بات میں صداقت ہے تو ایسے لوگوں کو فی الفور سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک ہے۔
تحریر: غنی محمود قصوری