یومِ مزدور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں سچ یہ مشہور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں کیسے دوں اس کو مبارک، میں خوشی کے دن کی دیکھ رنجور ہے،
Month: April 2024
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا دامن خاک
بیعت تھی جان دینے کی اور تھا نبی کا ہاتھ اس ہاتھ کی طرف بڑھا فوراً سبھی کا ہاتھ سلمان کا بلال کا بوزر ولی کا ہاتھ شامل تھا ان
تمنا ہے سرِ دنیا بس اک یہ کام کر جاؤں پیامِ سیدِ ابرار کو میں عام کر جاؤں نجاست شرک و بدعت کی جہاں بھر سے میں دھو ڈالوں کہ
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا ہاں! ضروری
زندگی ہے کٹھن تری ، مزدور ہے سعادت مگر بڑی ، مزدور اپنے ہاتھوں سے تو کمائی کرے اس میں برکت بہت ملی ، مزدور تیری عظمت کو میں سلام
جب بھی ملتا ہے وہ انجان بڑا لگتا ہے مجھ کو اس بات میں نقصان بڑا لگتا ہے عمر تھوڑی ہے مگر تاب جمال ایسی ہے جس جگہ بیٹھے وہ،
زباں کیسے بیاں کردے بھلا رتبہ محمد کا ہے سب نبیوں رسولوں میں بڑا عہدہ محمد کا خدا نے شرف بخشا ان کو نبیوں کی امامت کا ہے سب نبیوں
دل کی دنیا میں کھلبلی کیوں ہے ؟ تجھ کو دنیا سے دل لگی کیوں ہے ؟ چھوڑ دنیا کے سب صنم جھوٹے ان کی یادوں میں بے کلی کیوں
جسم و جاں کی تھکاوٹ سے میں چُور ہوں ایک مزدور ہوں دولت ِ دردِ سے کتنا معمور ہوں ایک مزدور ہوں تلخ لہجوں کا ہر زخم سہتا ہوا، تنہا
Load More