تم جدا ہوئے تو کیا، قربتیں نہیں گئیں دل سے اب بھی وصل کی خواہشیں نہیں گئیں ہجر یا وصال سب جاگ کر بسر ہوئے وقت کے بدلنے سے عادتیں
urdu poetry love sad
درد نعمت کی طرح زخم خزانوں جیسے اس لئے نوحے بھی گاۓ ہیں ترانوں جیسے ہم جنوں والے ہنسا کرتے ہیں گھاٹے کھا کر كفِ افسوس نہیں مَلتے سیانوں جیسے
اک ذرا مجھ سے دمِ مرگ تماشہ نہ ہوا بس اسی واسطے مُردہ مرا اچھا نہ ہوا تیرے جانے پہ بھی کب حسبِ توقع ہوا کچھ ؟ میں بھی مٹی
کمال ِ ہجر نہیں ہے سُخنوری میری عطائے خالق ِ اکبر ہے شاعری میری گلی میں گُونجتا رہتا ہے شور لوگوں کا مکاں میں گُونجتی رہتی ہے خامشی میری اب
اس کا اک اذن ملے میرا گلا کھُل جاۓ کھُل جا سِم سِم وہ کہے اور صدا کھُل جاۓ ہم سے ملنے میں نہ اتنی بھی خرد مندی دکھا راز