آئی کسی کی کال ،تری یاد آ گئی اے جانِ مہ جمال، تری یاد آ گئی اک یار نے جو حسن کی تشریح کے لئے پھولوں کی دی مثال، تری
بلال آدر
اگرچہ ہوں تو سہی پاش پاش میں درویش عجب ہے دکھتا نہیں بود و باش میں درویش ذرا دماغ میں، دل میں، خیال میں ہی سہی خدایا آ کہ ہوں
جینا ہوا محال، دسمبر کی رات میں آیا ترا خیال، دسمبر کی رات میں بے چینیاں ، وبالِ فسوں، تلخیِ خیال کیا کیا نہیں کمال،دسمبر کی رات میں جلتے ہوئے
کس احتیاط سے پھر آئینے سجاتے رہے تمام عمر جو چہرے یہاں چھپاتے رہے یہ بات لکھ کے کسی ڈائری میں رکھ لیں آپ ہمیں وہ لوگ بھی روئیں گے
دیکھ کر ناز و ادا تجھ سے محبت کر لی میں کسی کا نہ رہا تجھ سے محبت کر لی تیرے کہنے پہ ستارے تو نہیں لایا پر تیرے کہنے
خلوص آشنا بندہِ پارسا ہوا جن سے راضی سبھی کا خدا کریں جن سے رب کے فرشتے حیا ہیں مشکل دنوں کے نبیؐ کے نوا جہاں میں سخاوت کے سلطان
ہو کے شاہ نام فقیروں میں لکھانے والے اشک ناکردہ گناہوں پہ بہانے والے شمعِ خانہِ کعبہ کو جلانے والے گردنیں ظلم کی دنیا میں اڑانے والے عالمِ زیست میں
شدتِ کرب سے دوچار ہیں تازہ تازہ اہلِ مے خانہ گنہگار ہیں تازہ تازہ ہم ازل سے رہے اخلاق کے منصب پہ بلند آپ ہی صاحبِ کردار ہیں تازہ تازہ
محبتوں کا قرینہ بنا کے رکھا ہے درود زینہ بہ زینہ بنا کے رکھا ہے فقیرِ شہرِ مدینہ نہیں مگر میں نے دلِ زیاں کو مدینہ بنا کے رکھا ہے
ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے لوگوں نے لاش لاش کا غوغا کیا تھا جب دیکھا تو میں پڑا