غم چھپا کر مسکراتا ہوں سدا غمگین ہوں سب کو خوشیاں دے کے بھی میں خود رہا غمگین ہوں دردِ دل سے کس طرح تم کو کروں میں آشنا دور
اداس نظم
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا ہاں! ضروری
جب بھی ملتا ہے وہ انجان بڑا لگتا ہے مجھ کو اس بات میں نقصان بڑا لگتا ہے عمر تھوڑی ہے مگر تاب جمال ایسی ہے جس جگہ بیٹھے وہ،
قہقہے میں اداسی چھپاتا ہوں میں کوئی پوچھے تو خوش ہوں بتاتا ہوں میں سب سے ہنس کر ملے سب سے باتیں کرے عادتِ یار پر مسکراتا ہوں میں
دل کے خاک آلود کپڑے پر نکھار آنے لگا تھوڑا تھوڑا اب تمہارا اعتبار آنے لگا کچھ دنوں سےاس کو شاید ہم سمجھ آنےلگے کچھ دنوں سے سنگ کو شیشے
زندہ رہنا نہیں ہے مرنا ہے مجھ کو اک عہد سے مکرنا ہے اک تعلق بنے گا اور مجھے عمر بھر حادثوں سے ڈرنا ہے پھر ان آنکھوں پہ پڑ
خار کو پھول کہہ کر دکھایا گیا رات کو بھی یہاں دن بلایا گیا کس کو رودادِ غم میں سناؤں یہاں ہنسنے والوں کو کیسے رُلایا گیا باطلوں کی طرف
تو بتا دے کہاں جائیں سبھی ہارے ہوئے لوگ تیری دہلیز پہ دامان پسارے ہوئے لوگ وسعتِ شہرِ عدم بھی ہے یہاں صحرا بھی کس طرف جائیں ترے دل سے
نِظامِ زندگی سے ڈر گیا تھا مَیں بس کچھ دیر اپنے گھر گیا تھا مُجھے یاروں کی صُحبت نے بچایا میں اُس کے بعد سمجھو مر گیا تھا ہمارے گھر
Load More