تمنا ہے سرِ دنیا بس اک یہ کام کر جاؤں
پیامِ سیدِ ابرار کو میں عام کر جاؤں
نجاست شرک و بدعت کی جہاں بھر سے میں دھو ڈالوں
کہ میں توحید کے اس نور کا اِتمام کر جاؤں
جہالت کے اندھیروں کو اجالوں شمع دل سے
چراغِ علم سے روشن میں ہر اک گام…
بات تھی دل میں مگر پھر بھی تمہیں کہہ نہ سکا
رہ گیا آنکھوں میں سب کچھ ہی تمہیں کہہ نہ سکا
نام سن کر ہی ترا دل میں ہوا محشر بپا
دل کے احساسات میں پھر بھی تمہیں کہہ نہ سکا
بات سب سے ہی رہی تیری توجہ کے لیے
بات تم سے ہی جو کرنی تھی…