عشق کے ارض و سماوات سے ہجرت کر لی اُس نے محفوظ مقامات سے ہجرت کر لی ہر سُو آسیب زدہ گھر ہی نظر آتے ہیں کیا مکینوں نے مکانات
عرفان منظور بھٹہ
ہر جگہ ایسے رویے میں کہاں بولتا ہوں جس جگہ بولنا بنتا ہے وہاں بولتا ہوں خود سے لڑتا ہوں جھگڑتا ہوں بھلے جیسے مگر میں ترے ساتھ محبت کی
سرور دیتی ہے جاں کو گھٹا مدینے کی رُکی نہیں ہے کبھی بھی ہوا مدینے کی تمام عمر جہاں سے خفا رہا ہوں میں تمام عمر ہے مانگی دُعا مدینے
اُتارتا ہوں ڈائری پر اک خیال کی تھکن کِسی کے ساتھ کے عروج اور زوال کی تھکن جو ایک جھوٹے دستخط پہ سینکڑوں کماتا ہے کہاں سمجھ سکے گا وہ
جب اُس نے پُوچھا حال تو ، میں نے کہا ؛ میں ٹھیک ہوں اُسے بھی میری بات سے ، یہی لگا میں ٹھیک ہوں یہ میرے لوگ حال میرا
ہِجر ہے باعثِ آزار نہیں جانتے تھے بچپنا ٹھیک تھا جب پیار نہیں جانتے تھے مُجھ کو اک بِھیڑ میسر تھی مگر تنہا تھا اور یہ بات مرے یار
تُو مرے ساتھ نہ چل یار گنہگار ہوں میں تم سے بولا ہے کئی بار گنہگار ہوں میں میں گنہگارِ محبت ہوں بہت رُسوا ہوں تو ہے چاہت کا
دوڑ کر آؤں گا مجھ کو تُو اگر آواز دے میرے ہمدم میرے ساتھی چارہ گر آواز دے منزلوں کی چاہ ایسی ہو کہ بس چلتے رہیں حوصلے اتنے قوی
تُو یہ مت سوچ کیسا سوچتا ہوں ترے بارے میں اچھا سوچتا ہوں مہک جاتی ہیں میری ساری سوچیں میں تجھ کو جب بھی اپنا سوچتا ہوں مری بینائی گھٹتی
سر پر اگر ہو دھوپ شجر کاٹتے نہیں ہاتھوں سے اپنے ؛ اپنا ثمر کاٹتے نہیں ہم کو یہ زندگی کا سَفر کاٹتا ہے اب ہم لوگ زندگی کا سَفر
Load More