مولانا ابوالکلام آزاد قیام پاکستان کے مخلاف اور بھارتی مسلمانوں کے امام الہند
Molana abu ul kalam azad and his ideology
مولانا ابوالکلام آزاد… برصغیر پاک و ہند کا ایک تاریخی نام… محمد علی جناح کے سیاسی حریف اور بھارتی مسلمانوں کی نظر میں امام الہند ….ایک ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان میں ہمیشہ ایک منفی کردار کے طور پر دیکھے اور بیان کیے گئے. جب کہ اس کے برعکس ہندوستان میں بالعموم اور ہندوستانی مسلمانوں میں بالخصوص ایک ایسے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے کانگریس میں رہتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو ان کے وطن سے محبت دلائی اور پاکستان ہجرت کرنے سے روک کر بھارت میں رہنے پر راضی کیا.
میرے اوپر بیان کردہ الفاظ یقینا بہت سارے لوگوں کے لئے حیران کن ہوں گے لیکن بدقسمتی سے یہی حقیقت ہے. میں اس وقت ایک پاکستانی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مورخ کی حیثیت سے ابوالکلام آزاد کے کردار کو بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ کیا چاہتے تھے اور مستقبل کے حوالے سے ان کی کیا سوچ تھی جس کی وجہ سے انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح سے اختلاف رکھا.
مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں پاکستان کی صورت میں الگ ملک بنانا دراصل مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنا تھا
بات دراصل یہ ہے کہ ابوالکلام آزاد بھی محمد علی جناح کی طرح قیام پاکستان سے قبل کانگریس کے رکن رہے… صرف رکن نہیں بلکہ 1923 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی منتخب کر لیے گئے. اب جب ایک انسان ایک پارٹی کا صدر ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ میرے پاس اختیارات ہیں میں بہت کچھ کر سکتا ہوں… بہت کچھ کروا سکتا ہوں…. اور اسی بات سے انہوں نے اپنا وہ ہندو مسلم اتحاد والا وہ موقف اپنایا جو بعد میں ان کی پہچان بن گیا.
یاد رہے محمد علی جناح بھی کافی عرصہ کانگریس میں رہ چکے تھے لیکن وہ یہ بات جان چکے تھے کہ کانگریس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ مشکل ہے اس لیے وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے تھے لیکن علامہ اقبال کے بلانے پر دوبارہ آئے لیکن وہ بھی کانگریس میں شامل ہونے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے تا کہ مسلمانوں کے اکثریتی ممالک کو ملا کر ایک الگ ملک بنا لیا جائے.
مولانا ابوالکلام آزاد اس کو دوسرے رخ سے دیکھتے تھے اور وہ یہ کہ ہم نے بطور مسلمان صدیوں تک ہندوستان پر غوری غزنوی لودھی مغل خاندان کی صورت میں حکومت کی ہے. اگر ہم نے مقابلہ نہ کیا پیچھے ہٹ گئے تو یہ حکومت ہمیں دوبارہ ملنے والی نہیں. یہ ملک ہمارا ہی ہے اور ہم اس کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے. وہ قیام پاکستان کے وقت ہونے والی ہجرت کو بھی فرار کا نام دیتے تھے اور ان کی نظر میں پاکستان کی صورت میں الگ ملک بنانا دراصل مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنا تھا.
اب دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ان کی سب باتیں درست لگتی ہیں اور اس حوالے سے تاریخ میں جو ان کی تقاریر ملتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک درد لیکر ہی مسلمانوں کو ہندوستان میں متحد رہنے پر مجبور کر رہے تھے لیکن زمینی حقائق کچھ اور تھے. جو اس وقت انہیں سمجھ نہیں آ رہے تھے… جب کہ علامہ اقبال اور محمد علی جناح یہ سب کچھ سمجھ چکے تھے.
ابوالکلام آزاد کی اس سوچ سے بھارتی مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا کیا نقصان ہوا یہ بھی ایک نظر دیکھ لیتے ہیں. اب اس بات پر کوئی انکار نہیں کہ ہندوستان کے اندر بھی لاکھوں مسلمان ہزاروں مساجد موجود ہیں. جہاں مسلمان قوم کو بیشک ہندوؤں کے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھا جاتا لیکن بہرحال وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں. ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کبھی سوشل میڈیا پر بات ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں خوشی سے رہ رہے ہیں اور انہیں سجدے کی اجازت ہے تو وہ سمجھتے ہیں اسلام آزاد ہے.
بہرحال… اگر انہیں سجدے کی آزادی ہے تو اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہیں حکومتی سیاسی ملکی سطح پر ترقی کرنے میں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا ہے. اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک سکھ یا ہندو بھارتی وزیراعظم کی طرح کبھی ابوالکلام آزاد کی خواہشات و امنگوں کے مطابق کوئی بھارتی مسلمان وزیراعظم بنتے نہیں دیکھا گیا.
وہاں اگر مسلمانوں کے لیے کچھ پرکشش ہے تو یہی ہے یہ ان کے اجداد کا وطن ہے اور اس دھرتی پر ان کے پرکھوں نے صدیوں حکومت کی ہے. اب نہ تو انہیں بھارتی پارلیمنٹ میں کوئی وزارت مل سکتی ہے نہ حکومت. وہ اپنے جائز مطالبات بھی ہندو یا سکھ وزیراعظم سے نہیں منوا سکتے چہ جائیکہ وہ کوئی مزید دینی و ترقیاتی کام سرانجام دیں. ہر لحظہ ان کی زندگی ایک دو دھاری تلوار پر گزرتی ہے
آپ کو کافی بھارتی مسلمان ہندوستان کی دھرتی سے محبت کے ترانے گاتے نظر آئیں گے… کافی ایسے بھی نظر آئیں گے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں ہندوؤں سے کرنے میں عار محسوس نہیں کی… لیکن اس سب کے باوجود میں ان مسلمانوں کے لیے دل میں نرمی اور ہمدردی کے جذبات رکھتا ہوں بجائے ان کو ایک غیر مسلم ملک میں رہنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنانے کے.
ابواکلام آزاد اپنے موقف پر تنہا رہ گئے… گاندھی اور پیٹل اپنے موقف سے پھر گئے اور محمد علی جناح اپنے موقف پر قائم بھی رہے اور کامیاب بھی ہوئے۔
مجھے اپنے ملک پر فخر ہے اور میں اس کی تعمیر و ترقی کے لیے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں کیونکہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور اس کی تعمیر و ترقی مسلمانوں کی ہی ترقی ہے لیکن میں ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی دین کے لیے کی جانے والی کوششوں کو رائیگاں بھی نہیں سمجھتا. بیشک جو مولانا ابوالکلام آزاد کی سوچ تھی اس کے مطابق بھارتی مسلمان اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے اور یہ ایک تدبیری غلطی تھی لیکن اس سارے معاملے میں مجھے یہ کہیں نہیں لگتا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریہ بدنیتی، منافقت یا مسلمان دشمنی پر مبنی تھا.
اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کی کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کھلے لفظوں میں کیا. بعد میں بننے والے حالات بھی یہی بتاتے ہیں کہ جو ان کی سوچ اور ان کا وژن تھا وہ بھارتی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہو سکا. اپنی اس کتاب انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ تقسییم ہند کے شیدید خلاف تھے اور محمد علی جناح سے مخالفت کی وجہ بھی یہی تھی۔ لیکن گاندھی جی ، سردار پٹیل جو کافی عرصہ مولانا ابولکلام آزاد کو تسلیاں دیتے رہے کہ ہندوستان کبھی تقسیم نہیں ہو گا لارڈ ماونٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد کہنا شروع ہو گئے کہ تقسیم ہند ناگزیر ہے ۔ یہ بات مولانا ابولکلام آزاد کے لئے کافی حیران کن اور کافی مایوس کن تھی کہ جس مقصد کے لئے انہوں نے مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی مخالفت کی، گاندھی ، پیٹل کی حمایت کی بعد میں انہی گاندھی اور پیٹل نے محمد علی جناح کی حمایت کی اور مولانا ابولکلام آزاد کی مخالفت شروع کر دی۔ نتیجتا ابواکلام آزاد اپنے موقف پر تنہا رہ گئے گاندھی اور پیٹل اپنے موقف پر پھر گئے اور محمد علی جناح اپنے موقف پر قایم بھی رہے اور کامیاب بھی ہوئے۔
خلاصہ کلام یہ کہ محمد علی جناح عشروں تک تقسیم ہند کے لئے کوشش کرتے رہے، گاندھی سردار پٹیل اور مولانا آزاد عشروں تک تقسیم ہند کے خلاف رہے اور پھر اچانک تقسیم ہند ہو گیا۔ یعنی مولانا ابوالکلام ازاد کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس بارے میں انہوں نے نہیایت تفصیل کے ساتھ نہ صرف اپنی تمام کاوشوں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا بلکہ اپنے وہ خطوط بھی شائع کئے جو انہوں نے تقسیم ہندوستان کا فیصلہ سننے کے بعد اسٹیفورڈ کرپس کو لکھ کر بھیجے تھے۔ یہ کتاب جس کا نام ہے India wins freedom پی ڈی ایف شکل میں انٹرنیٹ پر موجود ہے آپ مکمل طور پر اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں
دوسرا بڑا ثبوت ان کی مزار قائد پر فاتحہ خوانی ہے. ہمارے ہاں تو سیاسی شدت پسندی اتنی زیادہ ہے کہ سیاسی مخالف کے ساتھ بیٹھنا تک اس لیے گوارا نہیں کہ سیاسی فالورز کو یہ بات ناگوار گزر سکتی ہے. جب کہ بانی پاکستان کی وفات کے بعد ابوالکلام آزاد کا خود چل کر ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ محمد علی جناح کو درست سمجھتے تھے.
کیا ہم واقعی آزاد ہیں یا ابھی تک غلام ہی ہیں ؟ کیا مولانا ابولکلام آزاد کے پاکستان کے متعلق خدشات درست تھے؟
اب یہاں پر ایک بات اور کہ عین ممکن ہے کچھ احباب کہیں اگر ابولکلام آزاد اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتے تھے تو پاکستانی بھی بھلا کب آزاد ہوئے؟ وہ بھی تو ابھی تک انگریز اور امریکہ وغیرہ وغیرہ کے غلام ہی ہیں. تو ایسے تمام احباب سے دو سوال ہیں کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کیا پاکستان صرف تین سال ہی آزاد رہا….؟ باقی ستر سال غلام ہی رہا؟ کیا پاکستان میں پسندیدہ لیڈر کی حکومت رہے تو ملک آزاد ہوتا ہے اور اگر اس کی حکومت گر جائے تو ملک غلام ہو جاتا ہے؟
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جو خواب محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا وہ ابھی تک شرمندہ تعبیر نہین ہوا۔ یعنی تعمیر پاکستان ہو چکی تکمیل پاکستان رہتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اب پاکستان کے قیام یعنی تقسیم ہندوستان کی حمایت شروع کردوں یا اس وجہ سے کہ مولانا ابواکلام آزاد کے خدشات کو درست کہنا شروع کر دوں کہ اگر ہندوستان تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو جائے کی جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی مسلمان سکون سے نہین رہ سکیں گے۔
بابائے قوم آئے تصور میں ایک دن
جہاں تک میری بات ہے میں تو خود کو آزاد سمجھتا ہوں اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس آزادی غلامی کا تعلق جذبات و احساسات سے زیادہ ہوتا ہے اور زمینی حقائق سے کم. وہ کہا جاتا ہے ناں کہ ایک بندہ جیل میں رہ کر بھی آزاد ہے اور کچھ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بھی غلام ہیں تو حقیقت اتنی ہی ہے. خود کو آزاد محسوس کریں اور وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے کر جائیں. یہی آپ کے لیے بہتر ہے. ورنہ اپنے آپ کو غلام سمجھ کر اور غلام باور کرواتے رہنا کوئی نفع بخش کام نہیں.
ہم آزاد ہیں اور آزاد رہیں گے ان شا اللہ. سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں. منصوبے بنتے بگڑتے رہتے ہیں. پابندیاں قید و بند زندگی کا حصہ ہیں. اور یہ ہر ملک کی ہر سیاسی تحریکوں میں عام بات ہے. اگر حکومتوں کے گرنے بننے کا تعلق آزادی غلامی سے ہے تو جن کی حکومت گری وہ اپنے آپ کو غلام سمجھنے میں حق بجانب ہیں لیکن اگر موازنہ کرنا ہے بھارت کے ساتھ تو ہم ان سے کہیں بہتر ہیں الحمداللہ.
سقوط ڈھاکہ ایک تاریخی زخم |اسے یوم سیاہ نہیں بلکہ یومِ وفا کے طور پر منائیں