مائی جھلی کا کاکا | وطن عزیز کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے والوں کے نام
Pak army martyrs | martyr of Pakistan
مائی جھلی کا کاکا…
گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز تھا اور ہماری ننھیالی یاترا کا بھی..
مروٹ کے صحرائی علاقوں کی ریت پھانکتے ہوے صادق آباد کی طرف رواں دواں گاڑی کو ڈرائیور نے جیسے ہی سڑک کنارے کھوکھے کے پاس بریک لگائی
کنڈیکٹر کی چنگاڑتی ہوئی سی آواز کانوں میں پڑی
گڈی 10 منٹ رُکے گی چاء پانی پی لو
یہ سڑک کے کنارے آباد قصبہ تھا جہاں اس کھوکھے کے علاوہ کچی چھت والی اکا دکا دکانیں تھیں
مسافر گاڑی سے نکل کر کھوکھے پر رکھے گھڑے کے پاس جمگھٹا بنا چکے تھے
میں نے بھی منہ سے ریت اتارنے کے لیے کھوکھے کے بائیں ہاتھ پر لگے نلکے کی جانب رخ کیا لیکن منہ دھوتے دھوتے ایک
عجیب سا منظر مجھے اپنی جانب متوجہ کر چکا تھا جس نے آنکھیں ساکت کر دی تھی.
اسکی عمر 70 سے 75 سال کے قریب ہو گی دوپٹے کے ہالے سے نکلی سفید لٹیں، کمزور نحیف جھریوں بھرا چہرا لیکن ان جھریوں زدہ چہرے سے پھوٹتا پیار اور آنکھوں کی محویت اسی سڑک کنارے لگے بورڈ پر جمی ہوئی تھی جسے وہ کبھی چومتی تھی کبھی اپنے ملگجے بوسیدہ سے دوپٹے کے پلو سے بار بار اس تصویری بورڈ کو کپکپاتے ہاتھوں سے صاف کرتی جسے تیزی سے گزرتی گاڑیاں بار بار دھول اڑا کر میلا کر رہی تھیں. اور پھر تھڑے پر جا بیٹھتی
ایسے ہی ایک گاڑی گزرنے کے بعد میں نے اس ماں جی کو بورڈ کے طرف لپکتے ہوے دیکھا تو سسپنس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بورڈ کے قریب جا کر دیکھا
بورڈ پر فوجی یونیفارم میں ملبوس ایک جوان کی تصویر آویزاں تھی جس پہ لال سیاہی سے نائیک کستور حسین شہید درج تھا
میں نے پوچھا
ماں جی اے کون اے
وہ بولی اے میرا نکا کاکا اے.
اے شہید اے میرا کاکا دہشتگردوں کے ساتھ لڑتے شہید ہو گیا اس کے سر اور چہرے پہ گولیاں لگیں اس چہرے پہ جسے میں چومتی تھی..
اس کی آنکھوں کی نمی اور آواز کی کپکپاہٹ دل چیر رہی تھی اس بوڑھی ماں کا اپنے بیٹے کے لیے دیوانہ پن دیکھ کر احساس ہوا ان ماؤں نے اپنے جگر ہم پر وار دئیے
کھوکھے والے کے مطابق اس کو مائی جھلی کہتے ہیں۔ تپتی دوپہر ہو یا ٹھٹرتی صبح جب سے مائی جھلی کا بیٹا شہید ہوا ہے یہ اسکا معمول ہے لیکن میرے مطابق وہ عقل سے جھلی نہیں تھی اپنے کاکے کے پیار میں جھلی تھی۔ وہ شہید جوان مائی جھلی کا کاکا نہیں بلکہ قوم کا فخر ہے۔
اس ماں کا چہرہ سالوں گزرنے کے بعد بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے
9 مئی کو شہدا کی تصاویر پر ڈنڈے برساتے لوگوں کو دیکھ کر بےساختہ وہ مائی جھلی یاد آ گئ کہ جن کو آج پتھر مار رہے ہو انکی ماؤں نے ان کے سر چوم کر تمھاری حفاظت کے لیے بھیجا
جن شہدا کی تصاویر پر ڈنڈے برسا رہے ہو انکی مائیں ان تصویروں پر دھول نہیں پڑنے دیتیں
یہ وہ جوان ہیں جو تمھاری حفاظت کے لیے خود راہوں کی دھول بن گئے