محترم والدین اور علماء دین
میں ایک ایسا نوجوان ہوں جسے اپنی جوانی کے آغاز میں ہی اچھی صحبت میسر آگئی تھی، مجھے گھر سے اتنا اسلامی علم میسر آ گیا تھا جتنا میرے ملک کے 80 فیصد نوجوانوں کو میسر نہیں ہوتا، مجھے ایسے لوگوں کی رفاقت نصیب ہوئی جو تہجدوں میں رویا کرتے تھے، اور جن کی پوری کی پوری زندگی رب کی خوش نودی اور جنت کے حصول کیلئے وقف تھی، جن کی اگر سب سے بڑی خواہش تھی تو رب کے دین کی سربلندی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینا تھا.
لیکن اس سب کے باوجود میں ایک ایسے دور میں جوانی کے ایام گزار رہا ہوں جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے. محترم والدین اور علماء دین یہ ایک ایسا دور ہے جس میں ایک بچہ 12 سال کی عمر میں جنسی لذت سے آشنا ہو جاتا ہے لیکن وہ 25،30 سال کی عمر تک بچہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ اس وقت تک اس کے اس فطری تقاضے کو تسلیم نہیں کرتا جب تک وہ ایک بھرپور مرد دکھنے اور گھسے پٹے تعلیمی نظام میں اپنی قیمتی زندگی کے 20،25 سال قربان کرنے اور چند سال بے روزگاری کے طعنے سہنے کے بعد ایک اچھی معاشی حالت تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو جاتا۔ میرے اس بائی پولر ماحول نے مجھے بھی بائی پولر بنا دیا، ایک طرف تو میں دین اسلام کی صحیح فہم حاصل کر کے اس فہم کو عام کرنے کے جذبات رکھتا اور کوشش کرتا رہا دوسری طرف میں اپنے فطری جذبات کا صحیح رستہ نہ ملنے پر متبادل رستے اختیار کرتا رہا۔
میرے اس بائی پولر وجود کا ہمیشہ ایک رخ معاشرے نے دیکھا، دوسرا رخ معاشرے نے نہ دیکھنا چاہا نہ اس کے سدباب کی کوئی کوشش کی۔
محترم والدین اور علماء دین
یہ آج کے معاشرے میں ایک نسبتا دین دار سمجھے جانے والے ایک نوجوان کی کہانی ہے،
میں آپ سے مخاطب ہونے کی جرات کروں گا کہ کیا آپ اس معاشرے کے اکثر نوجوانوں کو میری کیفیت سے بہتر حالت میں دیکھتے ہیں؟؟؟
جن یونیورسٹیوں میں آپ اپنے بچوں کو پڑھا کر فخر محسوس کرتے ہیں کیا آپ جانتے ہیں وہاں ایک کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں بالکل ایک فیملی کے افراد کی طرح گھل مل جاتے ہیں،
کیا آپ نے اپنے گھروں میں اور اپنے شاگردوں میں فرشتہ صفت نوجوانوں کی ایسی نسل پیدا کر رکھی ہے جو گلیمر اور میڈیا کے اس دور میں محض تقوی و للہیت کے سہارے اپنی جوانیوں کو پاکیزہ رکھ سکتے ہیں۔
کیا آپ نے اس کیلئے درکار ایک سازگار ماحول مہیا کر دیا ہے، اور کیا اسلام کا بھی یہی مطالبہ ہے؟؟؟
کیا آپ صرف عبادات کا طریقہ سکھا کر اور تقوی کا سبق پڑھا کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہو گئے ہیں؟؟؟
کیا ان نوجوانوں کی برباد ہوتی جوانیوں کا حساب آپ سے نہیں لیا جائے گا؟؟؟
اگر آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو مت کہیے کہ آپ نے اپنے بچوں کو وہ سب کچھ فراہم کیا ہے جو ان کی ضرورت تھی۔
مت کہیے کہ آپ نے ایک ایسی نسل تیار کرنی ہے جو اسلام کا مستقبل کہلائے گی۔
مت دھوکہ دیجیے اللہ تعالی کو، اس امت کے نوجوانوں کو اور خود اپنے آپ کو۔
محترم والدین اور علماء دین
ٹھہر جائیے ۔۔۔! صرف اپنی مت سنائیے، کچھ نوجوانوں کی بھی سنیے، کچھ ہمارا بھی مسئلہ سمجھیے، کچھ ہمارے لیے بھی کیجئے، ہم نے ایک لمبا عرصہ آپ سے پرہیز گاری کے سبق لیے ہیں، لیکن ہم اکثر اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ خالق کائنات کے سامنے ہر شخص اپنے عمل کا خود جواب دہ ہو گا۔ لیکن کیا ہماری تربیت کی ذمہ داری آپ نے اپنے سر نہیں لی تھی؟؟؟
کیا جب ہم میدان حشر میں سر جھکائے چپ کھڑے ہوں گے تو آپ کے سر فخر سے بلند ہوں گے؟؟؟
نہیں ہر گز نہیں۔۔۔!
حشر کے دن میری چپ کا ماجرا
امت کا نوجوان اس دنیا میں برباد ہونے کے بعد آخرت میں آپ کا گریبان پکڑنے والا ہے۔ پھر خود کو اس وقت کیلئے تیار کر لیجئے۔ کچھ دلائل اکٹھے کر لیجئے جو آپ مالک کائنات کے سامنے اپنی سرخروئی کے لیے پیش کر سکیں۔
آپ کا خیر اندیش: ایک نوجوان
Wow, superb blog layout! How long have you ever been running a
blog for? you make running a blog glance easy. The whole glance of your site is
fantastic, as neatly as the content! You can see similar here najlepszy sklep