اندھیری شب کا چراغ امام احمد بن حنبل
سیرت امام احمد بن حنبل سے ایک واقعہ ابو علی عبدالوکیل صاحب کے قلم سے
دو قیدی مختلف منزلیں
وہ دونوں قیدی تھے مگر ان کی منزلیں مختلف تھیں۔ ایک کودربار خلافت میں پیش ہونا تھا اور دوسرے کوعدالت میں ۔ناگہاں دوسرا قیدی چیخا”رک جاؤ! مجھے اس شخص سے ایک ضروری کام ہے.“ سپاہی ٹھہر گئے۔
چند لمحوں بعد پہلا قیدی نزدیک آگیا۔دوسرے قیدی نے سپاہیوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا”میں اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیناچاہتاہوں۔ اگرچہ میری طرح یہ بھی مجرم ہے لیکن میرے اور اس کے جرم میں بڑا فرق ہے۔“سپاہیوں نے اسے غور سے دیکھا”کیا تواس شخص کوجانتاہے۔؟”
لہجہ انتہائی تحقیر آمیز تھا ”یہ خلیفہ کامعتوب ہے۔ اس کے ساتھ کوئی محبت سے پیش نہیں آسکتا۔“
”اسے کون نہیں جانتا؟“ دوسرے قیدی نے کہا”ہم سب اس کے علم کے سائے میں جیتے ہیں۔
“ یہ کہہ کر وہ مڑا”میں آپ کے مقدس ہاتھوں کوبوسہ دینا چاہتاہوں۔ مگرقانون کے محافظوں کی نظر میں میرے ہونٹ اس قابل نہیں۔“
پہلے قیدی نے اپنے مخاطب پرنظر ڈالی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے محروم تھا”آپ مجھے نہیں جانتے۔میں بغدادکامشہور ڈاکو ابوالہیشم ہوں۔ میری پیٹھ پر بے شمار کوڑوں کے نشانات ہیں۔ میرے دونوں ہاتھ کاٹ دئیے گئے ہیں اور میں جرم کی زندہ علامت بن کررہ گیا ہوں۔ میری سیاہ بختی کایہ عالم ہے کہ مجھے دیکھتے ہی لوگ میرے گناہوں کی حقیقت جان لیتے ہیں۔
میں نے صرف اپنی ذات کو ہلاک کیا ہے لیکن آپ کی لغزش ساری دنیا کو تباہ کر ڈالے گی
قانون چاہتا ہے کہ میں آئندہ کے لئے توبہ کرکے عام انسانوں کی قطار میں شامل ہوجاؤں لیکن مجھے انفرادیت کی زندگی پسند ہے اگر یہ لوگ میرے دونوں پاؤں بھی جسم سے علیحدہ کردیں تو میں بستر پر لیٹے لیٹے یہ تمنا کرتارہوں گا کہ کاش!میں اس قابل ہوتا اورایک بار پھر جرم کرسکتا۔“
اتناکہہ کر الہیشم نے اس قیدی کی طرف دیکھا جس کی گرفتاری پرحکومت وقت نے اپنی پوری توانائی صرف کردی تھی۔
”میری یہ استقامت شیطان کی راہ میں ہے مگرآپ منزل حق کے مسافر ہیں۔ میں نے صرف اپنی ذات کو ہلاک کیا ہے لیکن آپ کی لغزش ساری دنیا کو تباہ کر ڈالے گی۔ اللہ آپ کے قدموں کو آزمائش کے راستے میں جمادے کہ آپ اہل دل کی آخری امید ہیں۔“ جوش جذبات میں ابوالہیشم کی آواز لڑکھڑانے لگی تھی۔ سپاہیوں نے اسے جھٹکا دے کر کھینچا۔ زنجیریں بج اٹھیں۔ ابولہیشم جاتے جاتے مڑا”امام!اللہ حافظ“ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں ظلم اور جہل پر سلامتی نہیں بھیج سکتا
بغداد کا رسوائے زمانہ قزاق جاچکاتھا۔مگرفضامیں اس کے الفاظ کی گونج اب بھی باقی تھی۔ قیدی کے چہرے پرکئی رنگ ابھر کر ڈوب چکے تھے اوراب وہ پہلے سے زیادہ پرسکون نظر آرہا تھا۔
سپاہیوں کو بھی ایک ڈاکو کی جرأت کامظاہرہ دیکھ کر شرمندگی کا احساس ہورہاتھا۔مگر وہ خلیفہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں بہرحال اس شخص کو زنجیریں پہنا کر دربار میں حاضر کرنا ہی تھا۔ جس نے ایک آمرکاحکم ماننے سے صاف انکار کردیاتھا۔
آخروہ سنگین لمحہ آپہنچا۔دربارمیں بیڑیوں کی جھنکار سنائی دی۔ خلیفہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ قیدی سامنے کھڑاتھا۔سپاہیوں کے ہونٹوں پرفاتحانہ مسکراہٹ تھی‘جیسے وہ کسی ناقابل تسخیر دشمن کوشکست دے کرلوٹے ہوں۔
”بے خبرعوام تمہیں اپنے روحانی پیشوا کادرجہ دیتے ہیں مگر تم مذہبی آداب سے اس حد تک ناآشناہو کہ اپنے امیر کوسلام تک نہیں کیا۔“خلیفہ نے قیدی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ طنز کانشترتھا۔
”سلام ایک کلمہ خیر ہے۔“ قیدی نے باوقار لہجے میں جواب دیا‘ میں ظلم اور جہل پر سلامتی نہیں بھیج سکتا۔“
اقتدار کی پیشانی پر ابھرنے والی شکن گہری ہوچلی تھی۔ مگرخلیفہ نے بڑی ہوشیاری سے جذبات پر قابوپالیا۔ وہ اپنے فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچاناچاہتاتھا۔”دربار کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔تمہیں خلیفہ کے احترام کوملحوظ رکھنا چاہئے تھا۔“ اس نے دوسرے انداز سے گرفت کی۔
”ہمیں تمہاری یہ گستاخیاں بھی گوارا ہیں اگرتم قرآن کومخلوق تسلیم کرلو“
”سرجھکانے کواحترام نہیں کہتے“ قیدی کے لہجے کی بے باکی بدستورتھی”وہ جو بادشاہوں کا بادشاہ تھا اس نے بھی ایسے کافرانہ احترام کاحکم نہیں دیا۔ پھر میں کون ہوں کہ اس بدعت کوجائز قرار دوں۔؟“
”ہمیں تمہاری یہ گستاخیاں بھی گوارا ہیں اگرتم قرآن کومخلوق تسلیم کرلو“ خلیفہ اندر ہی اندر پیچ وتاب کھارہاتھامگر اس نے اتمام حجت کی خاطر اپنی ناراضگی کااظہار نہیں کیاتھا۔
”یہ سب علم وفضل کی آخری منزل تک پہنچ چکے ہیں۔“ خلیفہ نے ان علماء کی طرف اشارہ کیا جو اس کے عقیدے کو تسلیم کرچکے تھے اور نتیجتاً دربار کی آراستہ کرسیوں پربیٹھے ہوئے تھے۔
قیدی نے ان فاضل شخصیتوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی جن کا خلیفہ نے حوالہ دیاتھا۔
”جب یہ قرآن کو علی الاعلان مخلوق کہتے ہیں تو پھر تمہارے علم کاکس دنیا سے تعلق ہے؟ کیا ان کی رائے سند کادرجہ نہیں رکھتی؟“خلیفہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اب آہستہ آہستہ اس کے ارادے بے نقاب ہوتے جارہے تھے۔
”مجھے ان حضرات کی علمی فضیلت پر کوئی شک نہیں“ قیدی کا تحمل قابل دیدتھا۔
”مجھے اس کابھی اعتراف ہے کہ میں دنیا میں سب سے کم علم انسان ہوں مگر قرآن کومخلوق تسلیم نہیں کرسکتا۔ وہ خدائے لم یزل کاکلام ہے اسے کسی حال میں بھی موت نہیں چھو سکتی۔“
بالآخر قیدی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس نے کسی عالم کی تضحیک نہیں کی تھی۔ بس اپنا نقطہ نظر واضح الفاظ میں بیان کردیاتھا۔
”میں اپنے ہاتھ سے تمہاری بیڑیاں کاٹوں گا۔“
”میں تم پر اپنے بیٹے سے زیادہ مہربان ہوں، اگرتم قرآن کے مخلوق ہونے کااقرار کرلو۔“ خلیفہ نے قیدی کو اسیر کر نے کے لئے نیا دام پھیلایا تھا۔ اس جال کے پھندے بظاہر ریشم سے بھی زیادہ نرم تھے مگر حقیقت میں ان کی سختی کے آگے آہنی حلقے بھی ہیچ تھے۔
”میں اپنے ہاتھ سے تمہاری بیڑیاں کاٹوں گا۔“ خلیفہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”پھرتم مملکت اسلامیہ کی سب سے محترم شخصیت بن جاؤ گے۔“ اقتدار نے ایک بوریانشین کو سب سے بڑی پیش کش کردی تھی۔
”مجھے اپنی حیثیت کااندازہ ہے۔ میں اس قدر عزت افزائی کو کس طرح برداشت کرسکوں گا؟“
قیدی نے بے نیازی کے ساتھ تمام عنایات کو ٹھکرا دیا۔
”پھر ایسے عاقبت نااندیش کوہلاکت سے کون بچاسکتاتھا؟“
خلفیہ کے چہرے پر پڑا ہوا تہذیب واخلاق کاخول اترگیا۔ اس نے شدید غصے میں تازہ دم جلادوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔ طاقتور بازو بلند ہوئے۔ سفاکی کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیاگیا۔ دربار کی ساکت فضا کوڑوں کی آواز سے لرز اٹھی۔قیدی کی پشت پر تازیانے برس رہے تھے۔
توباقی تیرا کلام باقی ۔۔۔تو بھی جلیل وجمیل۔۔ وہ بھی جلیل وجمیل۔
’ ”اے دلوں کے تھامنے والے! تونے اپنے بندوں سے اسی دن کاوعدہ کیا تھا۔ مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر ۔میری دستگیری فرما۔ میں تیری پناہ مانگتاہوں۔ آج کے دن مجھے تنہا نہ چھوڑ“ کوڑوں کی خوفناک آوازوں میں قیدی کی صدائیں شامل تھیں جس کی تمام عمر پرستش کی تھی آج وہ اسی ذات کو پکاررہا تھا۔ مزاج شاہی اوربرہم ہوگیا۔ تشددکی لہر اور تیز ہوگئی۔
خلیفہ کاخیال تھا کہ وہ مسلسل ضربوں کی تاب نہ لاکرسرجھکا دے گا۔مگرقیدی ایک بار پھر اپنے معبود سے سرگوشیاں کررہاتھا
”زمین وآسمان فانی
‘مکین ومکان فانی‘
توباقی تیرا کلام باقی
تو بھی جلیل وجمیل‘
وہ بھی جلیل وجمیل۔“
آمروقت ان کلمات کو برداشت نہیں کرسکتاتھا۔ پھر انسانی قہر وغضب نے وحشت کا رنگ اختیار کرلیااور جبروستم حد سے گزر گئے۔ جلادوں نے اپنے فن کے مظاہرے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ قیدی اپنے خون میں نہا چکا تھا۔ تشدد میں کمی نہیں آئی۔ قیمتی پتھروں پر انسان کا ارزاں لہو بہہ رہاتھا۔ پھر بھی وہ اپنے قدموں پر کھڑا رہا مگرکب تک؟ توانائی اپنی انتہا کوپہنچ گئی۔ قوت ارادی زائل ہونے لگی۔ بالآخر وہ سرِ درباربے ہوش ہوگیا۔
خلیفہ کویقین تھا کہ قیدی اب زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکے گا۔ جلاد اس کے ہوش میں آنے کاانتظار کررہے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ خلیفہ کے اشارے پر اس کے سامنے پانی سے بھرا ہوا برتن پیش کیاگیا۔ پیاس کی شدت سے قیدی کی زبان خشک ہوچکی تھی۔ اس نے پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر دوسرے ہی لمحے ہاتھ کھینچ لیا”میں روزے سے ہوں۔“ دربار میں زخمی کی باوقار آواز گونجی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ زمین سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
خلیفہ کی جانب بے نیازی سے دیکھا۔ اہل دربار کی کیفیات کاجائزہ لیا۔ پھر جلادوں سے پوچھا
”کیاوقت ہواہے؟“
”ظہر کا“ جواباً کہاگیا۔
”مجھے نماز کی مہلت دی جائے“
قیدی نے درخواست کی۔ اس موقع پر اس کا لہجہ نرم ہوگیا۔
شرعی مسئلے کے اعتبار سے نہ تمہارا وضو قرار رہا اور نہ جسمانی طہارت‘ پھر یہ کیسی نمازتھی۔؟
خلیفہ نے اجازت دی۔ زخمی نے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لی۔ وہ عام دنوں میں بہت سکون سے اپنے خالق کی عبادت کیاکرتا تھا۔ مگر آج اس کی جسمانی حرکات میں اضطراری کیفیت تھی۔ عمل ِ نماز معمول سے نسبتاً تیز تھا۔ شاید اس خیال سے کہ کہیں خلیفہ اور درباری اس کے صبروسکون کو تاخیری حربوں کانام نہ دیں‘ اس لئے وہ اپنی فطرت کے خلاف جلد بازی کامظاہرہ کررہاتھا۔ قیدی نے نماز ختم کی۔بہت مختصر دعا مانگی اور سیدھا کھڑا ہوگیا۔ سجدے کے بعد فرش پر ہاتھوں کے خون رنگ نشانات ابھر آئے تھے۔
”تم لوگ اپناکام جاری رکھو۔“قیدی جلادوں سے مخاطب ہوا۔”میں اپنافرض ادا کرچکا ہوں ……تم بھی اپنا فرض پورا کرو۔ فرض کی تکمیل ہی اقرارِ بندگی ہے۔“
اس سے پہلے کہ خلیفہ جلادوں کے لئے مشق ستم کانیاحکم جاری کرتا‘ ایک درباری عالم درمیان میں بول پڑا
”جب تمہاری نماز ہی ادانہیں ہوئی توپھرفرض کی ادائیگی کاکیاسوال پیدا ہوتا ہے؟“
بغداد کامشہور فقیہہ ایک لہولہان قیدی سے مخاطب تھا۔”
تم نے نماز اس وقت ادا کی جب تمہارے پورے بدن سے خون بہہ رہاتھا۔ شرعی مسئلے کے اعتبار سے نہ تمہارا وضو قرار رہا اور نہ جسمانی طہارت‘ پھر یہ کیسی نمازتھی۔؟“
خلیفہ اوردیگر اکابرین دربارقیدی کی اس گرفت پر مسکرانے لگے۔ ان کے خیال میں وہ موت کے خوف سے بدحواس ہوگیا تھا اور پھراس نے اسی دہشت کے عالم میں نماز اداکرلی تھی۔ قیدی کی اس غلطی نے خلیفہ کے کام کومزید آسان بنادیاتھا۔
جب دلیل آفتاب روشن ہوئی تو سطحی علم کے سارے چراغ بجھ گئے
”میں فقہ کے مسائل نہیں جانتا۔“ قیدی کی آواز بدستورپرسکون تھی۔
”پھرتمہیں کس نے مسند امامت پر بٹھایاہے؟“ دوسرا فقیہہ تیز لہجے میں بولا۔
”میں آج تک کسی مسند پر نہیں بیٹھا۔“ قیدی اب تک روایتی تحمل کامظاہرہ کررہاتھا۔”میں صرف ایک خاک نشین اورخاک ہی میری مسند ہے۔“
”چرب زبانی تمہاری غلطی کی پردہ پوشی نہیں کرسکتی۔“پہلے فقیہہ نے قیدی کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا اور پھر فوراً ہی اپنی اس نکتہ طرازی کی داد پانے کے لئے خلیفہ کی طرف دیکھا۔ آمرِ وقت اطمینان سے بیٹھا مسکرا رہاتھا۔ قیدی کے زخمی جسم پر لپٹی ہوئی زنجیروں کے آہنی حلقے اور بھی تنگ ہوتے جارہے تھے۔
”تمہیں اس کا پورا اختیار ہے کہ تم میرے ہرفعل میں خامیاں تلاش کرو۔“ قیدی کالہجہ تلخیوں اور نفرتوں سے پاک تھا۔ میں اپنے عمل کی وضاحت کرنے سے قاصر ہوں مگر میں نے وہی کیا جس کا سبق مجھے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا۔ میرا امیر نماز فجر کے دوران زخمی ہوا اور اسی حالت میں اپنے فرض کی تکمیل تک پہنچا۔ “قیدی نے اپنی نماز کو درست ثابت کرنے کے لئے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے لازوال عمل کاسہارا لیا تھا۔
جب دلیل آفتاب روشن ہوئی تو سطحی علم کے سارے چراغ بجھ گئے۔ خلیفہ حیران وپریشان تھا اور درباری فقہیوں کے چہرے مسخ ہوکر رہ گئے تھے۔
وہ آمرِ وقت خلیفہ معتصم باللہ تھا اور قیدی سیدنا امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ تھے جن کے خون سے تاریخ اسلام کااہم ترین باب لکھاگیا۔
تحریر : ابو علی عبدالوکیل
اگر آپ مزید اسلامی تاریخ سے کشید کئے گئے مزید اسلامی واقعات پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں